اوپر بیان ہوا اس میں سے درج ذیل اُمور کا استنباط ہوتا ہے: ۱: لیلۃ القدر کی رؤیت خواب کی مانند بھی ہوتی ہے پھر یہ خواب سچا ثابت ہوتا ہے اور واضح، روشن صبح کی طرح یہ رات سامنے آجاتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھلایا گیا کہ آپ(کیچڑ نما گیلی مٹی پر)سجدہ کر رہے ہیں اور اس رات کی صبح کی نماز میں آپ نے مٹی اور پانی پر سجدہ کیا۔ تو یہ بالکل اسی طرح سچ ثابت ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلایا گیا تھا۔ ۲: اس خواب پر بھروسہ اور اعتماد کرنا بلاشبہ یہ ایک وجودی امر کے ساتھ استدلال کی بنا پر ہے کہ جو کسی بھی شرعی قاعدہ کا مخالف نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کے حکم کو ترجیح دی ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرد صحابہ کرام کے ان راتوں میں خواب دیکھنے کے اتفاق پر ہوا۔ اور ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکماً ثابت رکھا ہو اس بارے میں کہ شب قدر ان دس راتوں میں صرف اس لیے تلاش کی جائے کہ ان لوگوں نے خواب دیکھے تھے۔ بلکہ لیلۃ القدر فعلاً موجود تھی(اور آج بھی ہے)اور یہ بات برابر ہے کہ انہوں نے ایسے خواب دیکھے ہوں یا نہ دیکھے ہوں۔ ساری بات کا مقصود |