(اس کے ادا کرنے سے پھر)کہیں عاجز نہ آجاؤ۔ ‘‘ [1] امام محمد ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اوریہ نماز تراویح والا معاملہ یونہی رہا(کہ اس کے بعد اسے باجماعت نہیں پڑھا گیا)اور لوگ اسی پر رہے۔(وہ اسے انفرادی طور پر پڑھتے رہے، کسی نے عشاء کے بعد پڑھ لی۔ کسی نے آدھی رات کو اور کسی نے رات کے آخری تہائی حصے میں)پھر نمازِ تراویح کا معاملہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ایسا ہی رہا اور امیر المؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں بھی ایسے ہی تھا۔ مگر اُس کے بعد ہوا یوں کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کسی رمضان المبارک کی ایک رات مسجد نبوی میں تشریف لائے، تو دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں بٹے نماز پڑھ رہے ہیں۔ کوئی آدمی اکیلا ہی نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی ہے کہ جماعت کروارہا ہے اور کچھ لوگ اُس کے پیچھے کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری رائے ہے کہ اگر میں ان سب حضرات کو ایک ہی حافظ قرآن امام کے پیچھے |