وَطَعَامَہُ مِنْ أَجْلِيْ، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہٖ وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَائِ رَبِّہٖ، وَلَخلُوفُ فِیْہِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ۔)) ’’ ابن آدم کے ہر عمل کا اجر کئی گنا کردیا جاتا ہے۔ نیکی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک کردی جاتی ہے۔ اور اللہ عزوجل فرماتے ہیں: سوائے روزے کے۔ روزہ میرے لیے ہوتا ہے اور(قیامت والے دن)اس کا انعام میں خود ہی متعین کروں گا۔ اس لیے کہ روزے دار اپنی نفسانی خواہش اور اپنے کھانے کو میرے لیے ہی ترک کرتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہوتی ہیں۔ ایک خوشی اسے اس کی افطاری کے وقت ملتی ہے اور ایک خوشی اُسے اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی۔ اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ و خوشبو دار ہوتی ہے۔ ‘‘ [1] ۳:روزے داروں کا روزہ افطار کروانا۔ چاہے ایک کھجور اور پانی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ سیّدنا زید بن |