پانچ ضروری اُمور میں سے ہے کہ جن پر محافظت کو شرع نے واجب کیا ہے۔ تو اگر روزے دار کے گمان پر اُس کے روزے کی وجہ سے ہلاک کا متحقق ہونا غالب آجائے اور اسے اس روزے کے سبب شدید مشقت لاحق ہوجائے اور یوں لگے گویا وہ نہایت مشقت والی محنت کرنے والوں میں ہوگیا جیسے کہ ہتھوڑے سے کام کرنے والا کوئی مزدور یا کسان جو سخت گرمی کے موسم میں درانتی کے ساتھ کسی فصل کی کٹائی کرے، یا نانبائی وغیرہم۔ ایسے لوگوں کے لیے اور ان جیسے دوسرے لوگوں کے لیے روزہ چھوڑدینا جائز ہے، مگر اُن پر قضاء لازم ہے۔ [1] مذکور بالا احکام کے ساتھ درج ذیل معاملہ کو بھی ملایا جاسکتا ہے۔ دشمن سے مڈبھیڑ ہونے کی صورت میں شدید بھوک اور پیاس کی وجہ سے نہایت کمزوری کا خوف، ڈر … تو اگر مجاہد فی سبیل اللہ کو یقینی علم ہوجائے یا اُس کا غالب گمان یہ ہو کہ اُس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوگا اور یہ روزہ اُسے لڑائی کے وقت کمزور کردے گا اور اُس کے لیے جسمانی کمزوری کا سبب بنتے ہوئے رکاوٹ بنے گا تو وہ معرکہ شروع ہونے سے قبل روزہ توڑ ڈالے۔ اگرچہ وہ مسافر بھی ہو اور مقیم ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دشمن سے مقابلہ کے لیے |