Maktaba Wahhabi

134 - 171
ہو تو امام قنوت پڑھے آپ اس کی اقتداء و اتباع کریں ۔‘‘ یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت پڑھنے سے منع فرمایا۔‘‘ 1 1۔ دیکھو: ابن ماجہ: ۱۲۴۲۔ الدارالقطنی: ۲؍ ۳۸۔ امام ترمذی السنی: ۲؍ ۲۵۱ پر فرماتے ہیں : نماز فجر میں قنوت کے مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعض اہل علم نماز فجر میں قنوت کے قائل ہیں ۔ یہ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے۔ احمد اور اسحاق کہتے ہیں نماز فجر میں قنوت نہیں ، الا یہ کہ مسلمانوں پر کوئی آفت آن پڑی ہو، اور جب مصیبت آ جائے تو مسلمان حاکم اسلامی لشکر کے لیے قنوت پڑھے گا۔ 1 1۔ مزید دلائل جواز کے لیے دیکھیں : بخاری: ۴۰۸۹۔ مسلم: ۱۴۹۹۔ حضرت ابو مالک اشجعی کہتے ہیں : ’’میں نے اپنے والد صاحب سے کہا: ابا جی1۔ آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان کے پیچھے نماز پرھی اور یہاں کوفہ میں پانچ سال تک حضرت علی کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔ کیا یہ لوگ قنوت پڑھا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: میرے بیٹے1۔ یہ بدعت ہے۔‘‘ 1 رواہ الترمذی: ۲؍ ۲۵۲۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ علامہ ابن تیمیہ میں فرماتے ہیں : 1 ’’تیسرا قول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حادثہ پیش آنے کی وجہ سے قنوت پڑھا، پھر سبب معدوم ہونے کی وجہ سے قنوت ترک کر دیا۔ پس اس اعتبار سے پیش آمدہ حادثات کی صورت میں قنوت پڑھنا مسنون ہوگا۔ اس قول پر فقہائے اہل حدیث کا عمل ہے، اور خلفائے راشدین سے ایسے ہی ماثور نقل کیا گیا ہے۔‘‘ مجموع الفتاوی: ۲۳؍ ۱۰۸۔ ۳۵۲۔ وتر ایک رکعت، اور پہلے کی نماز سے جدا ہے۔ 1 مسلم: ۱۷۰۶۔ ۳۵۳۔ ’’وتر میں قنوت رکوع کے بعد ہوگا۔‘‘ 1
Flag Counter