تعالیٰ آپ کو آپ کی امت کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائیں؛ [آمین]
پھر اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایاکہ آپ کو لوگوں کے شر سے بچا لیا جائے گا۔ تاکہ آپ کو ان چیزوں کی دعوت و تبلیغ پر ترغیب دی جائے جن کے بارے میں کسی کو گمان ہوسکتا ہو کہ شائد ان میں کتمان سے کام لیا جائے۔یہ امر لوگوں کی طرف سے ایذاء رسانی اور تکلیف دہی کا خوف ہوسکتا تھا۔ لیکن الحمد للہ کہ آپ پر جو بھی وحی نازل ہوئی تھی ؛ آپ نے اسے پوری طرح سے لوگوں کے سامنے بیان کردیا۔ …آگے فرماتے ہیں…:
’’ مشرکین کے بڑے بڑے سردار قتل ہوئے۔ ان کی جماعت کا شیرازہ بکھر گیا؛ ان کی اجتماعیت بوسیدہ و اورکمزور ہوگئی۔ اور اللہ تعالیٰ کا دین ہی سر بلند ہوا۔ پس جن لوگوں کی گردنیں تلوار سے بچ گئیں وہ اسلام لے آئے۔ حتی کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قریش کے سرداروں اور وڈیروں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:
’’ میرے بارے میں کیا خیال ہے؛ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟
تو سب نے یہی کہا: ’’ آپ ہمارے مہربان بھائی؛ اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘
تو آپ نے فرمایا: ’’ جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کی یہ عنایت و مہربانی علمائے امت کے ساتھ بھی رہی؛ اللہ تعالیٰ ہی انہیں لوگوں کے شر سے محفوظ فرماتے رہے۔‘‘ [فتح القدیر2؍ 87]
ابو حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ اس جملہ میں غیب کے متعلق خبر دی گئی ہے اور یہ ویسے ہی پوری ہوئی جیسے خبر دی گئی تھی۔نہ ہی کوئی آپ کوقتل کرسکا؛ اور نہ ہی آپ کو قیدی بنایا جاسکا۔ حالانکہ آپ کے دشمنان کی طرف سے آپ پر غالب آنے یا پھر قتل یا گرفتار کرنے کی بھر پور کوششیں کی گئیں۔اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت ِ نبوت کی دلیل ہے۔ کیونکہ اس
|