عرضِ ناشر سلف صالحین ( صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین ) کے اُصول عقیدہ میں سے ہے کہ دل سے پختہ تصدیق، زبان سے مکمل اقرار اور ارکان و جوارح ( اعضاء بدن) کے ساتھ مکمل عمل کا نام ایمان ہے کہ جو اللہ عزوجل اور اُس کے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت کے ساتھ بڑھتا ہے اور معصیت و نافرمانی کے ساتھ کم ہو تاہے۔ لغوی طور پر ایمان کا معنی کسی بات کی تصدیق اور خضوع و اقرار کا اظہار ہوتا ہے۔ جب کہ شرعاً ایمان کا مطلب تمام باطنی اور ظاہری اطاعات ہوتا ہے۔ چنانچہ باطنی اطاعتوں میں دلی افعال و اعمال ( اور مصمم ارادے) شامل ہوتے ہیں اور یہی دل کی تصدیق کہلاتے ہیں۔اور ظاہری اطاعتوں سے مراد بدن کے وہ افعال ہوتے ہیں کہ جو شریعت میں واجب اور مندوب ہوں۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ایمان وہ جوہر ہے جو دل میں ایک وقار رکھتا ہو اور عمل اس کی تصدیق کرے اور یہ کہ اللہ عزوجل کے احکام کی پیروی کرنے اور اس کے منع کردہ کاموں سے دُور رہنے کے نتیجہ میں ایمان کے ثمرات بالکل واضح ہو جائیں اور اگر علم ایمان، عمل سے متجرد ہو ( عملی طور پر اُس سے میل نہ کھائے) تو پھر اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔ اگر مجرد علم، عمل سے ہٹ کر کسی کو فائدہ دیتا تو ابلیس کو اس سے ضرور فائدہ پہنچتا۔ وہ ملعون جانتا تھا کہ بلاشبہ اللہ عزوجل اپنی ذات و صفات اور اُلوہیت میں یکتا و تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔اور بلاشبہ اس کے پلٹنے میں اُسے کوئی شک نہ تھا مگر جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اُسے حکم صادر ہوا کہ آدم(علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو اس نے انکار کر دیا اور تکبر سے کام لیا۔ چنانچہ اس کا شمار کافروں میں سے ہو گیا۔اور اللہ کی وحدانیت کا علم اس کی |