’’بار الٰہی! مجھ پر کسی مخلوق کا احسان نہ ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کا گھوڑا زندہ کر دیا۔ گھر پہنچے تو کہا:مُنّے گھوڑے کی زین لے لو ، یہ منگنی کا ہے۔ بچے نے زین اتار لی ، گھوڑا اس کے بعد مر گیا۔ [1]
ایک بار اہواز میں انہیں بھوک لگی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے کھانا مانگا ، آپ کے پیچھے ایک ریشمی پارچہ کے اندر رطب کھجوروں کی ایک ٹوکری گری۔ آپ نے کھجوریں کھا لیں ، پارچہ عرصہ تک بیوی کے پاس رہا۔ [2]
ایک مرتبہ رات میں ایک جھاڑی کے اندرنماز پڑھ رہے تھے ، ایک شیر ان کے پاس آیا۔آپ نے سلام پھیر نے کے بعد فرمایا:کسی اور جگہ سے اپنا رزق ڈھونڈو ، یہ سنتے ہی شیر دہاڑتا ہوا واپس چلا گیا ۔ [3]
سعید بن مسّیب رحمۃ اللہ علیہ ایام حرہ (یعنی یزیدبن معاویہ کے زمانہ میں نوکیلے سیاہ پتھروں کی جانب سے جب مدینہ کامحاصرہ کیاگیاتھا)میں نماز کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے اذان کی آواز سنا کرتے تھے ، اور یہ ایسے وقت میں ہوتا تھا کہ باقی آدمی چلے جاتے تھے اور مسجد ان کے سوا تمام آدمیوں سے خالی ہو جاتی تھی۔ [4]
قبیلہ نخع کے ایک آدمی کے پاس گدھا تھا ، جو راستے میں مر گیا ، اس کے دوستوں نے اس سے کہا کہ لائو ہم تمہارے سامان کو تقسیم کر کے اپنی سواریوں پر رکھ لیں ، اس نے کہا : مجھے تھوڑی سی مہلت دو ، اس نے اچھی طرح وضو کیا ، پھر دو رکعت نماز ادا کی ، اور اللہ تعالیٰ سے
|