جب آپ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچے تو دوڑ پڑے،حتی کہ جب آپ کے قدم نشیب سے اوپر آ گئے تو آپ عام رفتار کے مطابق چلے یہاں تک کہ مروہ پر آگئے۔ مروہ پر بھی آپ نے ایسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا۔جب آپ آخری چکر پورا کر کے مروہ پر پہنچے تو فرمایا: ’’ اگر مجھے اس بات کا پہلے علم ہو جاتا جس کا علم بعد میں ہوا ہے تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا اور اس کو عمرہ بنا لیتا،تم میں سے جن کے پاس قربانی نہیں ہے وہ احرام کھول دیں اور اس کو عمرہ بنا دیں۔‘‘
اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ حکم اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے۔ رسول اللہ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے دو مرتبہ فرمایا: ’’ عمرہ حج میں داخل ہوگیا،محض اس سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (مزید) جانور لے کر آئے،انھوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ احرام کھول کر رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگائے ہوئے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس طرز عمل پر ناگواری کا اظہار کیا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے باپ نے اس کا مجھے حکم دیا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ عراق میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ میں غصہ میں آگیا۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس کام کے بارے فتویٰ پوچھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،جو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے بارے میں بیان کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس نے سچ بتایا ہے،اس نے سچ کہا ہے۔ حج کی نیت کرتے ہوئے تونے کیا کہا تھا۔‘‘ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا تھا: اے اللہ ! میں اس چیز کی نیت کرتا ہوں،جس کی نیت تیرے رسول نے کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں (اس لیے میں حج سے پہلے احرام نہیں کھول سکتا،اور تم نے میرے احرام کی نیت کی ہے) اس لیے تم بھی احرام نہیں کھول سکتے۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے جانور جو
|