مراد صرف توحید ربوبیت ہو تو اس کے قائل تو مشرکینِ مکہ بھی تھے۔آخر وہ کیا خرابی تھی جس کی وجہ سے ان کی توحید ناقابلِ قبول ٹھہری؟ اس باب میں اُن تمام خرابیوں کی پوری صراحت سے نشاندہی کر دی گئی ہے۔
اسمائے حسنیٰ کا کیا مطلب ہے؟ ان کے وسیلے سے اللہ سے مانگنے کا کیا مفہوم ہے؟ یہ امور بخوبی بتا دیے گئے ہیں اور اس بارے میں مروجہ غلط طریق کار کی مدلل تردید کی گئی ہے۔خوب واضح کر دیا گیا ہے کہ ’’اسمائے جلیلہ‘‘ کا مقصد محض ان کا زبانی کلامی ورد اور وظیفہ نہیں بلکہ ان میں پنہاں معانی و مفاہیم پر شعوری طور پر پورا یقین و ایمان رکھنا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بندگی کا کیا مقصد ہے۔توحید الٰہی کے ایمان و اقرار کے بغیر بندگی، بندگی نہیں محض شرمندگی ہے۔اس موضوع کو ’’توحید تمام عبادات کی بنیاد ہے‘‘ کے زیرِعنوان مفصل دلائل سے بیان کیا گیا ہے۔توحید کی اس قدر زبردست اہمیت کیوں ہے؟!اس سوال کا جواب صراحت سے دیا گیا ہے، معاً بتا دیا گیا ہے کہ توحید ہی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق ہے جو اس نے اپنے بندوں پر لازم ٹھہرایا ہے۔انسان کی تخلیق اور سارا نظامِ کائنات جاری و ساری کرنے کا بنیادی مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار اور اظہار و اعلان ہے۔اسلام نے سب سے زیادہ زور توحید ہی پر دیا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں تیرہ برس تک توحید اور فکر آخرت ہی کا درس دیا۔توحید ہی کا سبق راسخ کراتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ اگر تمھارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیے جائیں تب بھی توحید میں ہرگز خلل نہ آنے دینا۔افسوس کہ امت مسلمہ نے اسی اہم ترین بنیادی سبق کو بھلا دیا۔
مسلمانوں میں عقیدۂ توحید میں بگاڑ کب آیا؟ اس سلسلے میں کیا کیا خرابیاں پیدا ہوئیں؟ قرآن مجید جیسی ابدی کتابِ توحید کے ہوتے ہوئے مسلمان راہ مستقیم سے کس طرح بھٹکے؟ ان سب باتوں کا جواب اس باب میں آگیا ہے۔توحید میں بگاڑ کے وجوہ اور اسباب کیا تھے؟ ان کا بھی ذکر بالاستیعاب کر دیا گیا ہے۔فلسفہ وحدت الوجود، وحدت الشہود اور حلول جیسے باطل عقائد اور فاسد نظریات کا مدلل رد کیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ ان عقائد کا اسلام سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔یہ سارے فلسفے دشمنان اسلام کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سازش کا نتیجہ تھے جن کی وجہ سے امتِ مسلمہ کے بہت سے لوگ ذہنی طور پر
|