Maktaba Wahhabi

67 - 315
جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام لوگوں کو وجود باری تعالیٰ کا یقین دلانے کے لیے نہیں آئے بلکہ انھوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ ہم سب کا خالق و مالک صرف ایک اللہ ہے، وہ یکتا ہے، بے مثل ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔تمھاری پیشانی ایک ہے، اس لیے اسے ایک ہی پروردگار کی چوکھٹ پرجھکاؤ۔یوں انبیائے کرام نے صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کی دعوت دی۔جب بھی ایسا ہوا کہ لوگ خالق حقیقی کو چھوڑ کر کسی اور کو رب بنا بیٹھے تو انبیاء نے خالق حقیقی کا تعارف کرایا جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے سامنے باری تعالیٰ کے کلی اقتدار و اختیار کا ذکر فرما کر اسے لاجواب کیا۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ ﴾ ’’(اے نبی!) آپ جان لیجیے کہ بلاشبہ اللہ کے سوا کوئی سچامعبود نہیں اور اپنے گناہ کی بخشش مانگیے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی اور اللہ آپ کی نقل و حرکت اور آپ کے ٹھکانے کو خوب جانتا ہے۔‘‘[1] یہاں بظاہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے مگر درحقیقت آپ کی امت کے ہر خاص و عام کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو الٰہ واحد ماننے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ بندہ صرف اسے اپنا نگران اعلیٰ مانے اور اس کے حضور اپنے لیے اور دیگر مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہے۔واللّٰه أعلم نیز فرمایا: ﴿هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ ’’یہ (قرآن) لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے تاکہ اس کے ذریعے سے انھیں ڈرایا جائے اور تاکہ انھیں معلوم ہو جائے کہ بے شک وہی (اللہ) معبود واحد ہے اور اس لیے کہ عقل مند نصیحت حاصل کریں۔‘‘[2] ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ عام لوگ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔زمانے اور
Flag Counter