وَھُوَ یُجِیرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیہِ(اور اﷲپناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔)
بے شک آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے حکم الٰہی پر سر تسلیم خم کردیا،اور اپنے والدین کے بارے میں برات ظاہر کردی۔کیونکہ اللہ کا ہر فیصلہ عدل وحکمت پر قائم ہے۔اللّٰہ کے بارے میں ظلم وناانصافی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سبحان اﷲ!کیا عجیب بات ہے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے والدین کی عدم مغفرت پر خوش رہیں ‘لیکن ایک دیہاتی کی مغفرت نہ ہونے پر اللہ سے ناراض ہوجائیں۔(سبحانک ھذا بھتان عظیم)
(۴) دیہاتی کا یہ جملہ ’’(انت یاربّ اکرم من ان تغضب حبیبک)دراصل اﷲکو انصاف اور عادلانہ فیصلہ سے ہٹانا ہے۔ظاہر ہے کہ دیہاتی کو نہ بخشنا دراصل اس کی کسی غلطی یا جرم کی بناپر ہی ہوا۔اب دیہاتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی دھمکی دے کر اﷲکو عادلانہ فیصلہ کرنے سے روک کر ناانصافی کرنے پر مجبور کرتا ہے ‘اور اﷲتعالیٰ محض اپنے حبیب کے غضب کے خوف سے ناانصافی کرنے پر مجبور ہے۔(نعوذ باللّٰہ)
|