Maktaba Wahhabi

260 - 325
بارش بند ہوگئی ‘ہم جمعہ پڑھ کر نکلے تو دھوپ چمک رہی تھی۔(بخاری ومسلم) ان دونوں ہی حدیثوں سے ثابت ہوگیا کہ مسلمان آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم سے استسقاء کیلئے درخواست کرتے تھے ‘اور آپ دعا فرمادیا کرتے تھے۔لہٰذا استسقاء کی سُنّت یہ ہوئی کہ صلوۃ الاستسقاء کے علاوہ کسی سے دعا کی درخواست کی جائے اور وہ دعا کردیا کرے۔ اس تفصیل کے بعد اب آپ پچھلے سوالات کی طرف رجوع کیجئے۔حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے محض اسی بناپر دعا کی درخواست کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوچکی تھی اور استسقاء کی کوئی سُنّت بھی آپ ادا نہیں فرماسکتے تھے ‘نہ استسقاء کی نماز پڑھاسکتے تھے ‘نہ آپ سے دعا کی درخواست ممکن تھی ‘نہ ہی آپ دعا فرماسکتے تھے۔یہ سب باتیں آپ کی وفات کی بنا پر آپ سے ناممکن ہوگئی تھیں۔اس لئے آپ نے دعا کی درخواست کی۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ کو دعا استسقاء کے لئے منتخب فرمایا جب کہ ان کے علاوہ صحابہ رضی اللہ عنہ میں عمل‘صلاح اور اسلام میں اولیت کے لحاظ سے زیادہ افضل لوگ موجود تھے ‘مثلاً خود حضرت عمر رضی اﷲعنہ ‘حضرت عثمان رضی اﷲعنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرات عشرہ مبشرہ وغیرہ تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبی تعلق کو زیادہ ترجیح دی۔حضرت عباس رضی اﷲعنہ بن عبدالمطلب آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے چچا تھے‘اس لئے آپ نے اس خاص طور پر خیال رکھا۔
Flag Counter