اور کھیتی باڑی کے کاموں میں مصروف ہوجانے کی صورت میں استحضار کی وہ کیفیت برقرار نہیں رہتی اس کو انھوں نے نفاق کی علامت قرار دے لیا اور اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ ان کے اندر نفاق کی بیماری پیدا ہوگئی ہے اور جب انھوں نے اپنی یہ کیفیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی تائید کی، بلکہ یہاں تک اقرار کیا کہ اس طرح کی کیفیتوں سے تو ہم سب دوچار ہوتے ہیں۔ جہاں تک ایمانی کیفیتوں میں گرمی اور سردی اور شدت اور کمی کا مسئلہ ہے تو اس کے احساس اور اقرار میں دونوں بزرگ حق بجانب تھے، لیکن انھوں نے اس تبدیلی احوال کو منافقت پر جو محمول کرلیا تو اس کا سبب خوف الٰہی یا تقویٰ کی وہ شدت تھی جس سے صحابہ کرام موصوف تھے اور جو اللہ کے صحیح العقیدہ اور صالح بندوں کے دلوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی درجے میں زندہ رہتی ہے اور اس کی روشنی میں ان کے درجات متعین ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے ان کی سرگزشت سننے کے بعد اس کی تردید نہیں فرمائی اور یہ نہیں فرمایا کہ تمھارے اندر نفاق کی بیماری نہیں ہے، بلکہ ان سے پوچھا کہ تمھارے اس دعویٰ یا اقرار کا سبب کیا ہے: ’’وما ذاک؟‘‘ اور جب انھوں نے وہ سبب بیان کردیا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو منافق سمجھنے لگے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کی یہ غلط فہمی دور فرمادی کہ مومن کی ایمانی کیفیت ہمیشہ اپنے اعلیٰ مقام پر برقرار نہیں رہتی اور جو اس وقت ہوتی تھی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں ہوتے یا ذکر و اذکار کر رہے ہوتے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے جو تعبیر اختیار فرمائی وہ حد درجہ بلیغ اور حقیقت واقعہ کی ترجمان ہے آپ نے فرمایا: ((إن لو تدومون علی ما تکونون عندی وفی الذکر، لصافحتکم الملائکۃ علی فرشکم وفی طرقکم۔)) ’’میرے پاس اور ذکر کے موقع پر تمھاری جو ایمان کیفیت ہوتی ہے اگر تم اس پر برقرار رہو تو فرشتے تم سے تمھارے بستروں اور راستوں پر مصافحہ کرنے لگیں۔‘‘ |