کیوں طرف داری کرتے۔ رابعاً سورۃ نساء جس میں یہ آیت ہے اس کے بعد تقریباً 24 سورتیں اور نازل ہوئیں اگر اس آیت سے آپ کو کلی علم غیب حاصل ہو چکا تھا تو پھر ان چوبیس سورتوں کے نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی نیز سورۃ نساء سے بعد میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے سورۃ نور، منافقون تحریم اور توبہ وغیرہ ہیں۔ سورۃ نور میں افک عائشہ(رض)کا واقعہ مذکور ہے جس کی وجہ سے حضور(علیہ السلام)عرصہ تک پریشان رہے سورۃ منافقون میں عبداللہ بن ابی اور دوسرے منافقین کی سازش کا ذکر ہے جس کا آپ کو پتہ نہ چل سکا سورۃ تحریم میں آپ کے شہد نہ کھانے کی قسم کا ذکر ہے جسے توڑنے کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا اور سورۃ توبہ میں مسجد ضرار کے سلسلے میں آپ کو اس مسجد میں جانے سے روک دیا حالانکہ آپ اس مسجد کے بانیوں کو مومن مخلص سمجھ کر اس میں جا کر نماز ادا کرنے کا وعدہ فرماما چکے تھے۔ یہ آیتیں تفصیل کے ساتھ وَمَا کَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلیَ الْغَیْبِ[1]
کی تفسیر میں مذکور ہوچکی ہیں یہ تمام آیتیں حضور(علیہ السلام)کی ذات گرامی سے علم غیب کی نفی کرتی ہیں اس لیے اگر زیر بحث آیت سے حضور(علیہ السلام)کے لیے کلی علم غیب ثابت کیا جائے تو اس سے بعد میں نازل ہونے والی ان آیتوں کی تکذیب لازم آئیگی جو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے کلی علم غیب کی نفی کرتی ہیں تفصیل بالا سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ اس آیت سے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لیے کلی علم غیب ثابت نہیں ہوسکتا۔
ایک من گھڑت قاعدہ: بعض مبتدع مولوی کہتے ہیں کہ مَا عموم کیلئے ہے اور عَلَّمَ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور مفعول نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہیں اللہ تعالیٰ مفیض عام ہے اور حضور(علیہ السلام)میں استعداد تام تو اس سے ثابت ہوا کہ حضور(علیہ السلام)کو کلی غیب معلوم تھا۔ اس کا جواب سورۃ علق میں عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ میں الانسان سے بعض مفسرین کے نزدیک نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مراد ہیں اور بعض بدعتی مولوی بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں تو یہاں بھی فاعل اللہ ہے اور مفعول نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہیں اور سورۃ علق کی یہ آیتیں بھی بالاتفاق سارے قرآن سے پہلے نازل ہوئی تھیں تو اگر مَا کو عموم اور استغراق حقیقی کے لیے لیا جائے اور عَلَّمَ ماضی کا صیغہ ہے جو گذشتہ زمانہ میں وقوع فعل پر دلالت کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے پہلے یا اس کے نزول کے ساتھ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو تمام علوم غیبیہ سکھا دئیے تھے تو(معاذ اللہ)پھر سارے قرآن کے نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ یہ تحصیل حاصل ہے نیز یہ قانون بھی کسی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول حضور(علیہ السلام)کی ذات ہو تو وہاں ہمیشہ عموم ہی مراد لیا جاتا ہے بلکہ شرک پھیلانے کے لیے ان مولویوں نے یہ قاعدہ اپنی طرف سے وضع کیا ہے۔
غلط استدلال:۔ مخالفین عموم علم آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر بعض حدیثوں سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً
|