چکی ہیں۔ بعض دفعہ بطور حکایت حرف نداء کو استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ التحیات میں کہا جاتا ہے السلام علیک ایھا النبی الخ حضرت عثمان بن حنیف نے بھی اندھے کو بطور حکایت یا بطور نصب العین اس دعا کی تلقین کی تھی۔ یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جبکہ اس روایت کو صحیح مان لیا جائے۔ لیکن علامہ آلوسی صاف لکھتے ہیں کہ حضرت نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے اندھے کو تلقین دعا کا واقعہ بالکل موضوع ہے۔([1])
دوسری حدیث:۔ أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: يا رسول اللّٰه، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له: " ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له: عليك الكيس، عليك الكيس "، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه [2]
جواب: اول تو یہی معلوم نہیں کہ قبر پر جانے والا کون ہے، وہ مجہول الحال والاسم ہے۔ معلوم نہیں ثقہ ہے غیر ثقہ ہے۔ دوم اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا اورحضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی قبر مبارک پر اس طرح استشفاع جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وفات کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو باہر لیجا کر بارش کے لیے ان سے دعا نہ کراتے اور نہ یہ کہتے کہ ابحضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہم میں موجود نہیں ہیں اس لیے ہم آپ کے چچا عباس کی دعا سے توسل کرتے ہیں۔ سوم اس روایت کی سند میں سیف بن عمرو ضبی ہے جو باتفاق محدثین ضعیف اور متہم بالزندقہ ہے۔ وہ جھوٹی حدیثیں بنایا کرتا تھا۔ امام ذہبی کہتے ہیں هو کالواقدی۔ امام ابو داود نے کہا لیس بشیء۔ ابو حاتم رازی نے کہا۔ متروک۔ ابن حبان، اتهم الزندقة۔ ابن عدی: عامة حدیثه منکر۔ امام ابن نمیر: کان سیف یضع الحدیث وقداتهم بالزندقة-
حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں وفات کے بعد آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے مزار پر جا کر استشفاع جائز نہیں یہ کام سلف میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔ اما دعاء الرسول وطلب الحوائج منه(صلی اللّٰه علیه وآله وسلم)وطلب شفاعته عند قبره بعد موته فهو مالم یفعله احد من السلف([3])(القاعدۃ الجلیلۃ ص 56)۔ بعض صحابہ وتابعین سے جو یہ منقول ہے۔ اللّٰهم انی اسئلک بنبیک محمد اس سے مراد ہے اسئلک بایمانی بنبیک محمد یعنی اس میں ایمان بالرسول کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ [4]
|