کہ ان کو فارس اور روم کی سلطنت عطا فرمائی جائےگی‘تب منافقین اور یہود نے کہا’’هيهات هيهات‘‘(یہ بہت دور کی بات ہے)تب یہ آیت نازل ہوئی’’قُلِ اللّٰهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ‘‘
(2) قتادۃ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اُن کی امت کو فارس اور روم کی سلطنت عطافرما دے تو یہ آیت نازل ہوئی’’قُلِ اللّٰهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ‘‘
(3) ابو سلیمان الدمشقی نے بیان کیا کہ یہودِمدینہ نے قسم کھا کر کہا کہ ہم اس مرد کی اطاعت نہیں کریں گے جس کا دعویٰ ہے کہ نبوت بنی اسرائیل سے دوسروں کی طرف منتقل ہوگئی ہے‘تب یہ آیت نازل ہوئی’’ قُلِ اللّٰهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ۔‘‘
’’ قُلِ اللّٰهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ‘‘ابو سلیمان الخطابی نے کہا کہ’’مَالِكَ الْمُلْكِ‘‘کا معنی ہے کہ ملک اور سلطنت اللہ عزوجل کے دستِ قدرت میں ہیں وہ جس کو چاہے عطا فرما دے۔اور انہوں نے کہا اس کا معنی یہ بھی ہے کہ جس دن کوئی شخص اپنی حاکمیت اور اپنی سلطنت کی حکمرانی کا دعوے دار نہیں ہوگا [1]
اس طرح ایک اور جگہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:’’ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا‘‘[2] یعنی جس دن آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹ جائے گا اور کوئی چیز ثابت نہیں رہے گی‘اُس دن کی سلطنت رحمٰن کے لیے ہوگی۔رحمٰن سے مراد جن کی رحمت دونوں جہانوں کو شامل ہے اور اُن کی رحمت کے عموم میں سے یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے دلوں کو اُن کے دشمنوں کو عذاب دے کر خوش کریں گے اور اگر رحمٰن اس رحمت کے ساتھ متصف نہ ہوں تو کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
علامہ سعیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہاں ایک سوال ہے کہ یہ عظیم سلطنت تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہر وقت حاصل ہے پھر اِس کا کیا فائدہ ہے کہ اُس دن رحمٰن کی سلطنت ہوگی؟؟
تو جواب میں لکھتے ہیں کہ اُس دن میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مالک نہیں ہو گا‘نہ صوتاً‘نہ معناً اور حقیقتاً ‘پس تمام بادشاہ اُن کے سامنے عاجزی سے جھک جائیں گے اور بڑے بڑے سردار ذلت کے ساتھ سرنگوں ہوں گے اور یہ وہ دن ہوگا جس دن کفار نےفرشتوں کی رؤیت کو طلب کیا تھا اور یہ دن کفار پر بہت سخت ہوگا۔ [3]
تجزیہ:
اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی تعظیم کرنے اور اس کا
|