Maktaba Wahhabi

28 - 440
ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسماء وصع فرمائے اور وہ آدم علیہ السلام کو سکھلائے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِؤنِیْ بِاَسْمَآئِ ہٰٓؤُ لَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (البقرہ:۳۱) ’’اور آدم کو سب کے سب نام سکھلا دیے، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا، پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ ‘‘ یعنی چیزوں کے نام سکھلائے۔ الغرض ہر چیز کا کوئی نام ہوتا ہے جس سے وہ ممتاز ہوتی ہے۔ قول مصنف: ’’باسم اللہ‘‘ میں لفظ ’’اسم‘‘ مضاف ہے اور لفظ ’’اللہ‘‘ مضاف الیہ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء مراد ہیں۔ کیونکہ جب مفرد کی اضافت کردی جائے تو اس میں عموم پیدا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ بِاسْمِ اللّٰہِ کا معنی ہوا: میں اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں کے ساتھ مدد طلب کرتا ہوں اور برکت حاصل کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نام اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الاعراف:۱۸۰) ’’اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں۔ انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اور لفظ اللہ پاک ذات ربّ العالمین کا نام ہے۔ یہ نام صرف اسی کے لیے خاص ہے۔ اور اس لفظ (اللہ) کا اطلاق صرف اسی پر ہوتا ہے جل جلالہ۔ کیونکہ لفظ اللہ الوہیت سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: بندگی، اور بندگی کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس کی طرف
Flag Counter