رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ غیبی اور مستقبل کے معاملات میں عقل و فکر پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ غیب و حاضر کو جاننے والی ذات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت شدہ باتوں پر اعتماد کیا جائے جو اپنی مرضی سے بات نہیں کرتا تھا بلکہ وحی کی بنیاد پر بولتا تھا۔ ماضی کی بہت سی باتوں کی خبریں بھی اس میں داخل ہیں۔ مثلاً آدم وملائکہ کا واقعہ، اقوام نوح و ابراہیم، اصحاب مدین، عاد و ثمود اور دیگر گزشتہ امتوں کے واقعات۔ ان سب کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے، اس لیے ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ یہ ماضی کے غیبی امور ہیں۔ مستقبل کے غیبی امور کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مثلاً علامات قیامت ،قیامت سے پہلے کیا ہوگا؟ آخری زمانہ میں کیا ہوگا؟ اسی طرح قبر کے عذاب اور اس کی نعمتوں سے متعلق خبریں، قیامت کے دن اور اس میں پیش آنے والے واقعات پر ایمان، نئی زندگی اور دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان اور جنت و جہنم پر ایمان، یہ سب ایمان بالغیب میں داخل ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ایمان بالغیب میں داخل ہے کیونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہوا نہیں بلکہ محض اس کی کائناتی اور قرآنی آیات اور اس کے پیغمبروں کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر ایمان لائے ہیں۔ ہم سچی صحیح احادیث، واضح آیات اور شب و روز دکھائی دینے والی اس کی مخلوقات اور اس کی بادشاہی جیسے قطعی دلائل پر اعتماد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء و صفات اور اس کی عبادت کی فرضیت پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کائنات کا از خود وجود میں آجانا یا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا اس کو پیدا کرنا ناممکن ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ ، اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بَل لَا یُوقِنُوْنَ، ﴾ (الطور:۳۵تا۳۶) ’’یا وہ کسی چیز کے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں۔ یا وہ (خود) پیدا کرنے والے ہیں؟ یا انھوں نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟بلکہ وہ یقین نہیں کرتے۔‘‘ |