کے مطابق اسے صحیح پڑھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ((اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ، وَالَّذِيْ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہٗ أَجْرَانِ۔)) ’’قرآن کو مہارت سے پڑھنے والا (قیامت کے دن) بزرگ، نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہوگا جو اللہ عزوجل کے ہاں کتابت وحی کا کام کرتے ہیں۔ اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر پڑھتا ہے لیکن اسے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے، اس کے لیے دگنا اجر ہے۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان سے قرآن کریم کی تلاوت حسب استطاعت ہی مطلوب ہے۔ لہٰذا اگر کوئی قرآن کو سیکھنے کی استطاعت رکھتا ہے اور اپنی قراء ت کو اچھا کرسکتا ہے تو اس پر یہ واجب ہے کہ اس علم سے جاہل نہ رہے۔ اگر کوئی اسے سیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ حسب استطاعت پڑھ لے، قرآن کی تلاوت اور قراء ت کو نہ چھوڑے۔ بلکہ کوشش کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ یہ ایک پہلو ہے۔ لیکن جس پہلو سے مصنف نے یہ حدیث بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ قاری کے حصے میں صرف قرآن کی تلاوت اور قراء ت ہے۔ جبکہ جو چیز پڑھی جاتی ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور قراء ت پڑھنے والے کا عمل ہوتا ہے۔ اسی لیے کوئی اسے اچھی آواز سے پڑھتا ہے اور کوئی اسے اچھی آواز سے نہیں پڑھ سکتا۔ چنانچہ لوگوں کی زبانوں سے مختلف انداز تلاوت کا پیدا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ قراء ت لوگوں کا عمل ہے اور جو چیز پڑھی جاتی ہے وہ اللہ کا کلام ہے۔ اسی لیے علماء کہتے ہیں: آواز قاری کی ہوتی ہے اور کلام اللہ تعالیٰ کا۔ بعض اس کو زیادہ اچھے انداز میں پڑھتے ہیں اور بعض کم۔ ***** |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |