نے کہا: جہنم کی طرف اللہ کی قسم ، میں نے پوچھا : ان کا کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا: انہوں نے آپ کے بعد اپنی پشتوں کے بل پھرکر ارتداد اختیار کرلیا تھا۔پھر ایک جماعت ظاہر ہوئی، جب میں انہیں پہچان چکاتو ایک آدمی میرے اور ان کے درمیان سے برآمد ہوا،اس نے کہا: آؤ، میں نے کہا: کس طرف ؟ اس نے کہا: جہنم کی طرف اللہ کی قسم،میں نے پوچھا :ان کا کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا:انہوں نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم)کے بعد اپنی پشتوں کے بل پھر کر ارتداد اختیار کیا تھا۔میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کچھ لوگ بچ کر(حوض تک پہنچ سکیں)، مگر اتنی سی تعدادمیں جتنی تعداد میں بِن چرواہے رات یا دن گزارنے والے اونٹ ہوتے ہیں۔ حافظ ابنِ حجر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:(بین أنا نائم ) اکثر نسخوں میں اسی طرح وارد ہوا ہے، جبکہ کشمیھنی کے نسخہ میں’’ نائم ‘‘با لنون کی بجائے ’’قائم‘‘بالقاف ہے، اور یہ روایت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ قیام سے مراد قیامت کے دن حوض پہ کھڑاہوناہے ،اگر ’’نائم‘‘ لیا جائے تو وہ بھی درست ہے ، اس سے مراد یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں خواب میں قیامت کے دن (حوض پہ کھڑا ہونے کا ) وہ منظر دیکھا(جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثِ مذکور میں ذکرفرمایاہے) حافظ ابن حجر نے حدیث کے آخری حصہ (فلا أراہ یخلص منھم إلا مثل ھمل النعم)کا مطلب بیان فرماتے ہوئے لکھاہےـ کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حوضِ کوثر پہ وارد ہونے کیلئے قریب آئیں گے تو انہیں روک دیا جائے گا۔( حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں)مطلب یہ ہے کہ ان میں سے حوضِ کوثر پر وارد ہونے والے بہت تھوڑے لوگ ہونگے ؛کیونکہ اونٹوں میں سے بِن چرواہے اونٹ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ گویا مذکورہ حدیث میں وارد الفاظ ’’فلاأراہ یخلص منھم إلا مثل ھمل النعم‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حدیثِ مذکورمیں جن دوجماعتوں کے حوض پر وارد ہونے کا ذکر ہے ،ان میں سے |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |