اور لحد سے کسی سبب سے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ کے تحت حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی سند سے بھی لائے ہیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن ابی کی قبر پر اس وقت تشریف لائے جب اس کو گڑھے میں ڈالا جا چکا تھا اور آپ نے حکم دے کر اس کو قبر سے باہر نکلوایا اس کی لاش کو اپنے گھٹنوں پر رکھا، اس پر اپنا لعاب دہن پھونکا اور اس کو اپنی قمیص پہنائی۔ [1]
سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۸۰ اور صحیحین میں متعدد صحابہ کرام سے مروی اس حدیث کے مضمون میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے اور بظاہر جو تعارض نظر آ رہا ہے وہ غور کرنے سے دور ہو سکتا تھا، مگر بعض لوگ ایسا کرنے کے بجائے حدیث کے انکار ہی کو پسند کرتے ہیں ، میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں نظر آنے والے تعارض۔ نہ کہ حقیقی تعارض۔ کا ازالہ کرنے سے قبل اس مسئلہ میں حافظ ابن حجر کے قول کا خلاصہ نقل کر دینا چاہتا ہوں ۔ فرماتے ہیں :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیرنی اللّٰہ‘‘ فرمایا ہے، یعنی اللہ نے مجھے استغفار کرنے یا استغفار نہ کرنے کا اختیار دیا ہے‘‘ کچھ لوگوں کے لیے آیت سے اس ’’تخیر‘‘ کا سمجھنا دشوار ہو گیا، لہٰذا ان کے بعض مشاہیر اس کی صحت کو نشانہ بنانے پر اتر آئے، جبکہ یہ کثیر سندوں سے مروی ہے اور اس کی صحت پر شیخین اور ان تمام لوگوں کا اتفاق ہے جنہوں نے اس کی تخریج کی ہے، اس حدیث کی صحت کے منکرین کا یہ طرز عمل یہ اعلان کر رہا ہے کہ ان کو حدیث کی معرفت حاصل نہیں ہے اور وہ اس کی سندوں سے بہت معمولی واقفیت رکھتے ہیں …، چنانچہ قاضی ابو بکر باقلانی نے اس کی صحت کا انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کو قبول کرنا جائز نہیں اور یہ درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے‘‘ قاضی ابو بکر باقلانی کے جو الفاظ ’’التقریب‘‘ میں منقول ہیں وہ یوں ہیں : اس حدیث کا تعلق ’’اخبار آحاد‘‘ سے ہے جس کے ثبوت کا کوئی علم نہیں ‘‘ اور امام الحرمین… ابو المعالی عبد الملک بن عبد اللہ بن یوسف جوینی… نے اپنی ’’مختصر‘‘ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ صحیح بخاری میں یہ مروی نہیں ہے اور اپنی دوسری کتاب ’’البرھان‘‘ میں لکھا ہے کہ اہل الحدیث نے اس کو صحیح نہیں قرار دیا ہے‘‘ اور غزالی نے یہ راگ الاپا ہے کہ ’’لگتا ہے کہ یہ خبر صحیح نہیں ہے‘‘ اور صحیح بخاری کے شارح ابو جعفر احمد بن سعید داؤدی نے اس کو غیر محفوظ، یعنی شاذ قرار دیا ہے۔‘‘ [2]
حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے جن منکرین کے ناموں کا ذکر کیا ہے وہ سب متکلمین اشاعرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سب تقریباً صوفی المشرب تھے، غزالی کا شمار تو اکابر صوفیا میں ہوتا ہے ایک طرف تو ان کی کتابیں جھوٹی اور من گھڑت روایتوں سے بھری پڑی ہیں اور دوسری طرف ایک صحیح ترین حدیث کا انکار!!!
|