Maktaba Wahhabi

96 - 241
نکال رہا ہوں۔ میرے بعد ابوبکر آئے اور ناتوانی سے ایک یا دو ڈول پانی نکالا۔ اللہ انھیں معاف فرمائے، پھر عمر بن خطاب آئے تو وہ ڈول بڑی بالٹی میں تبدیل ہوگیا۔ میں نے ایسا باکمال آدمی نہیں دیکھا جس نے ان جیسا حیرت انگیز کام کر دکھایا ہو۔ انھوں نے اتنا پانی کھینچا کہ لوگوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اونٹوں کو خوب سیراب کیا۔‘‘ [1] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صاحبِ فراش ہوئے اور بیماری نے شدت اختیار کی تو انھیں خدشہ لاحق ہوا کہ مبادا وہ مسلمانوں کو نئے خلیفہ کی سرپرستی میں دیے بغیر چھوڑ جائیں۔ انھوں نے جان لیوا بیماری کی مطلق پروا نہ کی۔ مسلمانوں کو بلایا، اپنی معزولی کا اعلان کیا اور کہا کہ بارِخلافت اٹھانے کے لیے کسی اور کو منتخب کرلیجیے۔ انھوں نے فرمایا: ’’مجھ پر جو کیفیت (بیماری کی) طاری ہے وہ تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسی بیماری میں مر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے عہد و پیمان کو میری فصیلِ بیعت سے آزاد کر دیا اور آپ پر سے میری گرہ کھول ڈالی ہے۔ اس نے آپ کا امرِ حکومت آپ کو لوٹا دیا ہے، اس لیے جو آدمی آپ کو پسند آئے، اسے اپنا امیر بنا لیجیے۔‘‘ لوگ گئے۔ مشاورت کی۔ جستجو کی لیکن کسی ایک پر اتفاق نہ کر پائے۔ خلیفۂ رسول کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ آپ ہی نئے خلیفہ کا انتخاب کر دیجیے۔ فرمایا: ’’بہت اچھا، مجھے تھوڑی مہلت دیجیے تاکہ میں دیکھوں کہ اللہ کی مرضی کیا ہے، دین کے لیے کیا بہتر اور بندگانِ خدا کے لیے کیا سود مند ہے۔‘‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ وہ تشریف لائے تو فرمایا: ’’عمر بن خطاب کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
Flag Counter