Maktaba Wahhabi

81 - 241
سمجھتی ہو، وہ اسلام قبول کرلے گا۔ انھوں نے جواب دیا کہ جی ہاں! مجھے تو یوں ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس پر عامر نے کہا یہ تو ممکن ہے کہ خطاب کا گدھا اسلام لے آئے لیکن یہ ممکن نہیں کہ خطاب کا بیٹا مسلمان ہو جائے۔[1] لیکن ام عبداللہ کی بات سچ نکلی اور عمر بن خطاب نے اسلام قبول کرلیا۔ دورِ جاہلیت کا ایک دانش مند آدمی جسے اسلام نے کیا حاصل کیا، پوری انسانیت نے قیامت تک کے لیے اسے اپنا لیا۔ ایک خردمند روح جو ضائع ہونے کو تھی، اپنے بدن میں واپس آئی تو اسے اندھیرا اجالا الگ الگ دکھائی دینے لگا۔ اس نے نہ صرف پوری امت کو بلکہ پوری انسانیت کو فائدہ پہنچایا۔ اسلام کے لیے اُس نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ دوسری اقوام نے اس کے کارہائے نمایاں دیکھے تو انگشت بدنداں رہ گئیں۔ انھوں نے دیکھا اور جانا کہ جب روحِ انسانی بالیدگی کی بلند سطح پر پہنچتی ہے تو کیسی کیسی مہمات سر کرتی اور کیسے کیسے طوفانوں سے ٹکراتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ عدل و انصاف اور حق پرستی زندگی کا مزاج کیسے بن جاتے ہیں۔ انھوں نے مشاہدہ کیا کہ گوشت پوست کا آدمی محض عدل و انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے کیسے جیتا ہے۔ گویا وہ عدل و انصاف ہی کے لیے جاگتا اور سوتا ہے۔ گویا وہ ظلم و ستم مٹانے کے لیے سانس لیتا ہے۔ گویا وہ عدل و انصاف کا مقروض ہے۔ عدل و انصاف اس سے قرض چکانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور وہ اس فکر میں گھل رہا ہے کہ اسے ہرحال میں یہ قرض چکانا ہے۔[2] آخر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے۔ اسلام لانے کے بعد انھوں نے
Flag Counter