Maktaba Wahhabi

80 - 241
میدان میں آئے۔ لبید نے اِس کے جواب میں چند شعر کہے اور کاغذ پر لکھ کر بابِ کعبہ پر آویزاں کر دیے۔ کسی مسلمان کی نظر پڑی تو اس نے طیش میں آکر چند آیات قرآنی کاغذ پر تحریر کیں اور ان شعروں کے برابر میں آویزاں کر ڈالیں۔ اگلے روز لبید حرمِ کعبہ میں آیا۔ اپنے کلام کے برابر میں لٹکتی آیات پڑھ کر حیران رہ گیا۔ وہ بول اٹھا کہ بخدا یہ کسی آدمی کا کلام نہیں۔ میں اس کے آگے سرجھکاتا ہوں۔ (میں مسلمان ہوتا ہوں۔) [1] حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام کے قریب آنے کا ایک باعث یہ بھی بنا کہ جب مسلمانوں نے مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کی تو مہاجرینِ حبشہ میں وہ افراد بھی شامل تھے جن کا تعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دوست قبیلے سے تھا۔ انھیں دوستوں کی ہجرت سے سخت صدمہ پہنچا۔ انھوں نے سوچا کہ یہ افراد جس دین کی خاطر گھر بار چھوڑنے کو تیار ہوگئے ہیں وہ یقینا سچادین ہوگا۔ ام عبداللہ بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہا بھی مہاجرین حبشہ میں شامل تھیں۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حلیف قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں سواری پر بیٹھے دیکھا تو پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے۔ ام عبداللہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ہم گھر بار چھوڑ کر جارہے ہیں۔ تم نے ہم پر بہت ظلم ڈھایا ہے۔ ہم اللہ کی زمین میں نکل جائیں گے اور تب تک نہیں لوٹیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کوئی اور راہ نہیں نکال دیتا۔ اتنا کہہ کر وہ چل دیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں خیرو عافیت کی دعا دی اور چلے آئے۔ بعدازاں ام عبداللہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر عامر سے اِس کا ذکر کیا اور خیال ظاہر کیا کہ شاید عمر بن خطاب کو ہمارا ہجرت کرنا اچھا نہیں لگا اور وہ پریشان ہوا ہے۔ عامر نے اُن سے کہا کہ شاید تم
Flag Counter