سے جائزہ لیتا اور چور اچکوں کو یہ احساس دلاتا رہتا کہ اس کی آنکھ غافل نہیں اور اس کا ہاتھ اسلحے پر ہے۔ تم میں سے جو کوئی اس کی چراگاہ کے آس پاس پھٹکا، وہ تلوار کا بھرپور وار کرکے اس کی گردن اتارنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ احتساب کا یہ عمل مردوں کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ اسلامی معاشرے کی خواتین بھی اس سلسلے میں بھر پور کردار ادا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ بزرگ خاتون سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو راستے میں ملیں تو انھوں نے کہا: ’’عمر! مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ زمانہ، جب تمھیں عمیر (چھوٹا عمر) کہا جاتا تھا۔ تم عکاظ کے میلے میں غلاموں کو لاٹھی سے ہانکتے پھرتے تھے، پھر بہت دن نہیں گزرے کہ تمھیں عمر کہا جانے لگا، پھر بہت دن نہیں گزرے کہ تمھیں امیر المومنین کہا جانے لگا۔ اس واسطے رعایا کے متعلق اللہ سے ڈرنا۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا کہ جو آدمی وعید الٰہی سے ڈرتا ہے ، ناممکن اس کے لیے ممکن ہوجاتا ہے۔ اور جو آدمی موت کا منظر نگاہوں میں رکھتا ہے وہ زندگی کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔‘‘ جارود نامی ایک صاحب امیرالمومنین کے ہمراہ تھے۔ انھوں نے بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ’’خاتون! آپ نے امیر المومنین سے بہت کڑوی کسیلی باتیں کہہ لیں۔ اب بس کیجیے۔‘‘ امیر المومنین نے جارود سے فرمایا: ’’چھوڑیے۔ انھیں کہنے دیجیے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ کون ہیں؟ یہ خولہ ہیں، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اہلیہ، جن کی بات اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر سے سماعت فرمائی۔ یوں میرا تو بہت ہی زیادہ فرض بنتا ہے کہ ان کی بات غور سے سنوں۔‘‘ |