حضرت خلیفہ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا، نہایت خندہ پیشانی سے پیش آئے اور جبلہ بن ایہم کو اپنے قریب بٹھایا۔ بعدازاں آپ نے حج کا ارادہ کیا تو جبلہ بھی ہمراہ ہولیا۔ طوافِ کعبہ کے دوران میں بنی فزارہ کے ایک شخص کا پاؤں جبلہ کے تہ بند پر آگیا۔ تہ بند کھل گیا۔ جبلہ نے طیش میں آکر اس بیچارے کے اِس زور کا تماچا مارا کہ ناک کی ہڈی توڑ ڈالی۔ فزاری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آگے فریاد کی۔ آپ نے جبلہ کو بلا بھیجا۔ وہ آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کیا غضب کیا۔ وہ بولا: یاامیرالمومنین! اس نے جان بوجھ کر میرا تہ بند اتارا۔ کعبہ کی حرمت کا پاس نہ ہوتا تو میں تلوار کے وار سے اس کا سر کھول دیتا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے خود اقبالِ جرم کرلیا۔ اب اِس آدمی کو راضی کرو ورنہ میں اسے تم سے قصاص دلواؤں گا۔‘‘ ’’آپ مجھ سے کیا قصاص لیں گے؟‘‘ جبلہ نے پوچھا۔ فرمایا: ’’تمھاری ناک بھی توڑ ڈالی جائے گی۔‘‘ [1] وہ بولا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ وہ معمولی سا آدمی ہے اور میں بادشاہ ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اسلام نے تم دونوں کو برابر کردیا ہے۔ تم تقویٰ اور عافیت کے لحاظ سے ہی اس پر فوقیت پاسکتے ہو۔‘‘ جبلہ نے کہا: ’’یاامیرالمومنین! میں نے تو سمجھا تھا کہ اسلام میں مجھے جاہلیت سے بڑھ کر عزت ملے گی۔‘‘ فرمایا: ’’چھوڑو ان باتوں کو۔ اس آدمی کو جیسے بھی ہو، راضی کرو ورنہ میں اسے تم سے قصاص دلواؤں گا۔‘‘ |