انھی کی خدمت کرو، بطور مجاہد تمھیں تمھارا وظیفہ برابر ملتا رہے گا۔[1] بچوں سے ان کی شفقت کا ایک واقعہ سنان بن سلمہ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ یہ ان کے بچپن کا واقعہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک روز میں دیگر بچوں کے ساتھ مل کر ٹپکے کی کھجوریں چن رہا تھا۔ اتنے میں امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ادھر آنکلے۔ بچے انھیں دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے لیکن میں اپنی جگہ کھڑا رہا اور بھاگا نہیں۔ عمر بن خطاب قریب آئے تو میں نے جلدی سے کہا: ’’یاامیرالمومنین! یہ تو ٹپکے کی کھجوریں ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’مجھے دکھاؤ۔ ٹپکے کی ہوئیں تو مجھے بھی نظر آجائیں گی۔‘‘ جھولی میں جھانک کر دیکھا تو کہا: ’’تم نے سچ کہا۔‘‘ دوسرے بچے جو بھاگ کر دور چلے گئے تھے، میں نے ان کی جانب اشارہ کرکے کہا: ’’یا امیرالمومنین! انھیں دیکھیے، آپ کے جاتے ہی وہ مجھ پر حملہ آور ہوں گے اور میری تمام کھجوریں ہتھیالیں گے۔‘‘ میری بات سن کر امیرالمومنین مسکرائے اور مجھے میرے گھر چھوڑ گئے۔[2] اِس خوش اخلاقی اور رحمدلی کے باوجود دو خواتین نے ان کی طرف سے شادی کی پیشکش ٹھکرادی تھی۔ ایک خاتون نے ان کے متعلق کہا تھا کہ ان کی زندگی خشک و سادہ ہے اور وہ عورتوں کے معاملے میں سخت گیر واقع ہوئے ہیں۔ دوسری نے کہا تھا: وہ آخرت کے معاملے میں ایسے کھوئے ہیں کہ دنیا کے معاملات سے یکسر بیگانہ ہوگئے ہیں۔ پہلی خاتون حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دختر ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کا ہاتھ مانگا تھا۔ ام المومنین نے اپنی بہن |