نامی ایک شخص کو سو دینار دیے اور فرمایا: ’’مہمان بن کر عمیر کے ہاں جاؤ۔‘‘ گھر میں کھانے پینے کی وافر اشیا اور دیگر ساز و سامان نظر آئے تو آکر مجھے بتانا۔ لیکن اگر تم دیکھو کہ صاحب خانہ تنگدستی کا شکار ہے تو یہ سو دینار اسے دے آنا۔‘‘ حارث سو دینار ہمراہ لیے روانہ ہوا۔ عمیر کے ہاں پہنچا تو وہ گھر کے باہر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حارث نے جاکر سلام کیا۔ عمیر نے خیر مقدم کیا اور کہا کہ آیئے، تشریف لایئے۔ کہیے، کہاں سے آنا ہوا۔ ’’مدینہ منورہ سے آیا ہوں۔‘‘ حارث نے جواب دیا۔ ’’اچھا تو مسلمانوں کا مزاج کیسا ہے؟‘‘ ’’بہت اچھا۔‘‘ ’’امیر المومنین کیسے ہیں؟‘‘ ’’وہ بھی اچھے خاصے ہیں۔‘‘ ’’یا اللہ! عمر کی مدد کرنا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، وہ تجھ سے بے حد محبت کرتا ہے۔‘‘ عمیر نے رقت آمیز لہجے میں دعا کی۔ حارث ان کے ہاں تین دن مہمان رہا۔ گھر میں کھانے کو جو کی فقط ایک بڑی روٹی تھی۔ وہ بھی زیادہ تر حارث کو دی جاتی اور خود اہلِ خانہ تھوڑی بہت روٹی پر گزارہ کرتے۔ بارے نوبت فاقوں تک پہنچی۔ چوتھے روز عمیر نے حارث سے ملتجیانہ کہا: ’’نوبت فاقوں تک پہنچی۔ اب آپ تشریف لے جائیں تو بہت بہتر ہو۔‘‘ حارث نے دینار نکالے اور عمیر کو دیتے ہوئے کہا: ’’یہ اشرفیاں امیرالمومنین نے مجھے آپ کے لیے دی تھیں۔ انھیں کام میں لایئے۔‘‘ |