یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تمام عوامل میں قراءات قرآنیہ کو فعلی یا تقریری طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا گیا ہے، اور یہ اختلاف امت اسلامیہ پر آسانی و وسعت کی غرض سے جائز قرار دیا گیا ہے۔ حدیث نبوی ہے: ((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَؤُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ)) ’’قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، ان میں سے جو آسان ہو، اسے پڑھو۔‘‘ یہ حدیث بھی اس آسانی پر دلالت کرتی ہے۔ اس آسانی پر دلالت کرنے کے لیے وہ حدیث زیادہ واضح ہے جو امام احمد رحمہ اللہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں احجار المرا جگہ کے پاس جبرئیل علیہ السلام سے ملا، میں نے کہا: اے جبرئیل علیہ السلام ! میں أن پڑھ امت کی طرف بھیجا گیا ہوں، جس میں ایسے مرد، عورتیں، لڑکے، لڑکیاں اور عمر رسیدہ افراد موجود ہیں، جنہوں نے کبھی کتاب نہیں پڑھی۔ تو سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے کہا: بے شک قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘[1] ۶۔ مصاحف کا نقاط وحرکات سے خالی ہونا اور قراء کرام کا اجتہاد کرنا: یہ معروف زمانہ مستشرق گولڈ زیہر کا موقف ہے، وہ لکھتا ہے: ’’ان اختلافات کی ایک بڑی تعداد عربی خط سے پیدا ہوئی، کیونکہ اس خط (یعنی رسم عثمانی) پر مختلف تعداد میں اوپر یا نیچے نقطے لگانے سے مختلف انداز کی آوازیں پیدا ہوئی ہیں۔ اور اگر نقاط سے آوازیں مساوی ہو جائیں تو حرکات سے مختلف ہو جاتی ہیں، اور مصحف کا خط اس زمانے میں نقاط و حرکات دونوں سے خالی تھا، حالانکہ ان کے بغیر کلمہ کے اعراب اور آواز کی تحدید ممکن نہیں ہے، چنانچہ اس رسم |