بطور حرف استثناء اسی طرح لکھا ہوا ہے،لیکن بعض قراء نے اسے بطور حرف جر ’’إِلٰی‘‘ پڑھا ہے۔اور یہ قراء ت بھی اسی طرح متواتر ہے۔ (۴)۔ سورۃ مریم کی آیت﴿لِأَہَبَ لَکِ﴾ میں لفظ ’’لِأَہَبَ‘‘ تمام مصاحف میں لام کے بعد الف کے ساتھ لکھا ہوا ہے،لیکن بعض قراء نے نقل اور سماع کی اتباع کرتے ہوئے اسے لام کے بعد یاء کے ساتھ ’’لِیَہَبَ‘‘ پڑھا ہے۔ (۵)۔ لفظ ’’الْأیکَۃ‘‘ سورۃ الشعراء کی آیت﴿کَذَّبَ أَصْحٰبُ لْئیْکَۃِ الْمُرْسَلِینَ﴾ میں اورسورۃ ص ٓکی آیت﴿وَأَصْحٰبُ لْئیْکَۃِ أُولَئِکَ الْأَحْزَابُ﴾ میں تمام مصاحف عثمانیہ میں لام سے قبل حذف الف کے ساتھ یوں ’’لیکہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ لیکن بعض قراء نے اسے لام سے پہلے ہمزہ و صلی کے حذف اور لام کی فتح (زبر) اور اس کے بعد یائے ساکنہ کے ساتھ ’’لَیْکَۃَ‘‘ پڑھا ہے۔ یہ قراء ۃ رسم کے مطابق ہے۔اور بعض قراء نے اسے اسی طرح ’’الْأَیْکَۃِ‘‘ یعنی ہمزہ وصل اور لام ساکن کے ساتھ اور اس کے بعد ہمزہ کی فتح (زبر)،یاء ساکنہ اور تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے۔یہ قراء ت بظاہر تمام مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف ہے،لیکن پہلی قراءت کی طرح بطریق تواتر ثابت ہے۔ مذکورہ حقائق سے یہ بات بغیر کسی ادنیٰ شبہ کے روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآنی الفاظ کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا،اس کا قراءات کے اختلاف اور تنوع میں قطعاً کوئی عمل ودخل تھا اور نہ کبھی رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر وہ قراء ت درست قرار پاتی جو لغتِ عربی سے ہم آہنگ تھی اور مصاحف عثمانیہ کا رسم جس کا متحمل تھا،لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ متعدد ایسے کلماتِ قرآنیہ ہیں جن کا رسم نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے ایک سے زائد قراءات کی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے،لیکن ان میں سے صرف ایک ہی قراء ت صحیح ہے،اور اس ایک کے علاوہ کسی بھی قراء ت کو باوجود عربی لغت کے ساتھ مطابقت کے کسی نے جائز قرار نہیں دیا ہے،جیسا کہ گزشتہ مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے۔تواب اس |