قیامت کے دن اسی ترتیل کے بارے میں اللہ جل شانہ فرمائیں گے اے قاری قرآن جنت کی سیڑھیاں چڑھتا جا اور پڑھتا جا: ((وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلٌ فِی الدُّنْیَا۔)) [1] ’’اور ترتیل کے ساتھ پڑھو جس طرح تو دنیا میں ترتیل کرتا تھا۔‘‘ چنانچہ اسی ترتیل کی تفسیر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یوں کی : ((اَلتَّرْتِیْلُ ہُوَ تَجْوِیْدُ الْحُرُوْفِ وَمَعْرِفَۃُ الْوُقُوْفِ۔)) [2] ’’ترتیل کا معنی ہے حروف کی تجوید (حروف کو شناخت کے ساتھ ان کے مخارج و صفات کے ساتھ ادا کرنا ) اور وقوف کی معرفت حاصل کرنا۔ ‘‘ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی (جو کہ خود ترتیل کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ) لوگوں کو یہی حکم دیا: ((جَوِّدُوْا الْقُرْآنَ زَیِّنُوْہٗ بِأَحْسَنِ الْأَصْوَاتِ۔)) [3] ’’قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھو اور اس کو اچھی آوازوں کے ساتھ مزین کرو۔ ‘‘ گویا کہ یہ ان کا قول ترتیل کی تفسیر ہی ہے اور پھر فعلاً اس کو اپنے شاگردوں کو بھی پڑھایا جیسا کہ موسیٰ بن یزید الکندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰه عنہ یُقْرِی رَجُلًا فَقَرَأَ الرَّجُلُ {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ } مُرْسِلَۃً فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ مَا ہَکَذَا أَقْرَأَنِیْہَا النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَقَالَ کَیْفَ أَقْرَأَکَہَا؟ قَالَ أَقْرَأَنِیْہَا {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ} فَمَدَّہَا۔)) [4] |