Maktaba Wahhabi

35 - 494
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخی کے مرتکب کو فوراً جہنم واصل کر دیا گیا اور اسے کیفر کردار تک پہنچانے والے سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی، اس سلسلہ میں چند واقعات حسب ذیل ہیں: ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کیا کرتی تھی، اسے ایک شخص نے موقع پا کر قتل کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کا بدلہ، قصاص یا دیت کسی بھی صورت میں نہیں دلوایا۔[1] ٭ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ اس واقعہ کی تفصیل بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک نابینا شخص تھے، اس کی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی ذات کے متعلق حرف گیری کرتی تھی، اس کا مالک نابینا شخص اسے منع کرتا اور سختی سے روکتا تھا لیکن وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہتی، ایک رات ایسا ہو اکہ وہ حسب عادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے لگی اور آپ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو اس غیرت مند نابینا شخص نے گھر میں پڑی ہوئی کدال اٹھائی اور اسے اس گستاخ لونڈی کے پیٹ پر رکھ کر اوپر سے دباؤ ڈالا، جس سے اس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ مر گئی، صبح کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا: ’’میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ رات جو واقعہ ہوا ہے، اس کا مرتکب سامنے آجائے۔‘‘ وہ نابینا شخص کھڑا ہوا اور ہانپتا کانپتا گرتا پڑتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اسے قتل کیا ہے، اس قتل کی وجہ یہ تھی کہ یہ لونڈی آپ کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کو برا بھلا کہتی تھی، میرے بار بار کہنے اور سمجھانے پر باز نہیں آتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے موتیوں جیسے دو خوبصورت بیٹے بھی پیدا ہوئے ہیں، آج رات اس نے پھر وہی نازیبا حرکت کر ڈالی، مجھے غیرت آئی اور میں نے اسے قتل کر ڈالا۔ واقعہ سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سب گواہ رہو، اس گستاخ لونڈی کا قتل ضائع اور خون رائیگاں ہے، اس کا کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا۔‘‘ [2] ٭ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مؤقف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے اور اس کا خون ضائع ہے۔ چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے، کسی بات پر آپ کو ایک شخص کے متعلق غصہ آیا، پھر آپ کا غصہ زیادہ ہونے لگا، میں نے عرض کیا اگر آپ مجھے اجازت دیں تو اسے قتل کر دوں؟ جب میں نے اسے قتل کرنے کا عندیٔہ دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجلس کو برخاست کر دیا، جب لوگ منتشر ہو گئے تو آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت تو نے کیا کہا تھا؟ جبکہ میرے ذہن سے یہ واقعہ محو ہو چکا تھا۔ ان کے یاد دلانے پر مجھے یاد آیا آپ نے فرمایا کہ واقعی تو نے اسے قتل کر دینا تھا؟ میں نے عرض کیا اگر آپ مجھے اجازت دیتے تو میں نے اسے ضرور قتل کر دینا تھا آپ اگر اب بھی مجھے حکم دیں تو اسے کیفر کردار تک پہنچا سکتا ہوں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ منصب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں گستاخی کرنے والے کو قتل کر دیا جائے، آپ کے بعد کسی اور کے لیے نہیں ہے۔[3] اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنا ایک ایسا جرم ہے کہ اس کے مرتکب کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اسے فوراً کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ کعب بن اشرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
Flag Counter