Maktaba Wahhabi

34 - 494
گستاخی کرتے ہوئے مذموم خاکے اور کارٹون شائع کرنے کی شرمناک حرکت کر ڈالی ہے، ان توہین آمیز خاکوں میں کئی چیزیں ایسی ہیں جن سے مسلمانوں کا اشتعال میں آنا لابدی امر ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس بارے میں جو اتفاق رائے سامنے آیا ہے، اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ پھر ان خاکوں کی مذمت کرنے والے مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی ان کے ہم آواز ہیں۔ حتیٰ کہ دین و مذہب سے بالا، آزاد خیال مگر سنجیدہ فکر کے لوگ بھی ان خاکوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ کتاب و سنت کی رو سے حضرات انبیاء علیہم السلام کی تصویر کشی کرنا یا ان کے مجسمے بنانا بذات خود خلاف شرع ہے۔ خواہ اس تصویر یا مجسمے میں اہانت یا رسوائی کا کوئی پہلو نہ بھی پایا جاتا ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک صورتوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقار عطا فرمایا ہے اور شیطان کو بھی اس امر پر قدرت نہیں دی کہ وہ ان شخصیات کی صورت اختیار کر سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص خواب میں میری زیارت سے مشرف ہوا، اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار کرنے پر قادر نہیں۔‘‘ [1] قرآن و سنت کی روشنی میں توہین رسالت کا جرم معمولی نوعیت کا نہیں ہے کہ اس سے چشم پوشی کی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا﴾[2] ’’بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی طرف سے لعنت ہے اور قیامت کے دن ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کیا جائے گا۔‘‘ غزوۂ تبوک کے سفر میں منافقین نے آپس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا، کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع مل جاتی، جب آپ ان سے جواب طلبی فرماتے تو کہتے کہ ہم تو صرف سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ہنسی مذاق کر رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دل بہلانے کے لیے صرف ایسی باتیں ہی رہ گئی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و عالی صفات کو ملوث کیا جائے، کسی دوسری چیز سے تمہاری دل لگی نہیں ہوتی، قرآن کے الفاظ یہ ہیں: ﴿وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ۰۰۶۵ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ١ ﴾ [3] ’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں (کہ کیا تم ایسی باتیں کرتے ہو) تو کہیں گے ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کر رہے تھے، آپ کہہ دیں کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی ہوتی ہے؟ بہانے نہ بناؤ، تم واقعی ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اس نص صریح سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور دیگر شعائر اسلام کو اپنے مذاق کا موضوع بنانا بہت خطرناک عمل ہے، اس راستہ پر چل کر انسان براہِ راست کفر تک پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ کتب حدیث میں متعدد ایسے واقعات مروی ہیں کہ
Flag Counter