Maktaba Wahhabi

0 - 5274
Book Name سنن ابی داؤد
Writer ابو داؤد سلیمان بن اشعث الازدی
Publisher دارالسلام
Publish Year 2016ء الموافق ۱۴۳۷ھ
Translator الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی
Volume
Number of Pages
Introduction نام و نسب سلیمان نام، ابوداؤد کنیت، اور نسب یہ ہے: سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران ازدی سجستانی۔ ولادت و خاندان امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش آپ کے اپنے بیان کے مطابق ۲۰۲ ھ میں ہوئی، قبیلہ ازد سے تعلق کی بناء پر ازدی کہلاتے ہیں۔ سجستانی نسبت سیستان یا ( سجستان ) میں سکونت کی وجہ سے ہے، جو سندھ و ہرات کے مابین اور قندھار (افغانستان) کے متصل واقع ہے۔ طلب حدیث کے لیے بلاد اسلامیہ کا سفر آپ نے احادیث کی روایت و تحصیل کے لئے بلاد اسلامیہ کے علمی مقامات کا سفر کیا، جن میں مصر، شام، حجاز ( مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ )، بغداد، جزیرہ، بصرہ اور خراسان وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ کئی بار بغداد تشریف لے گئے، نیساپور، مرو، اصبہان وغیرہ کے محدثین کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے استفادہ کیا۔ اساتذہ و شیوخ آپ کے اساتذہ وشیوخ تین سو (۳۰۰) سے زائد ہیں جن میں سے بعض مشاہیر درج ذیل ہیں: (1) احمد بن حنبل، (2) اسحاق بن راہویہ، (3) ابو ثور، (4) یحییٰ بن معین، (5) ابوبکر بن ابی شیبہ، (6) عثمان بن ابی شیبہ، (7) سعید بن منصور، (8) سلیمان بن حرب، (9) سلیمان بن عبدالرحمن دمشقی، (10) شجاع بن مخلد، (11) محمد بن بشار بندار بصری، (12) محمد بن صباح نزار دولابی، (13) محمد بن منھال، (14) مسدد بن مسرہد، (15) قعنبی وغیرہ وغیرہ۔ تلامذہ امام ابوداؤد سے بہت سارے علمائے حدیث نے روایت لی ہے ، جن میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں : أبو عيسى في (جامعه) ، والنسائي - فيما قيل - وإبراهيم بن حمدان العاقولي، وأبو حامد أحمد بن جعفر الأشعري الأصبهاني، وأبو بكر النجاد، وأبو بكر أحمد بن محمد الخلال الفقيه، وأحمد بن محمد بن ياسين الهروي، وأحمد بن المعلى الدمشقي، وإسحاق بن موسى الرملي الوراق ، وإسماعيل بن محمد الصفار.وحرب بن إسماعيل الكرماني، والحسن بن صاحب الشاشي، والحسن بن عبد الله الذارع، والحسين بن إدريس الهروي. وزكريا بن يحيى الساجي، وعبد الله بن أحمد الأهوازي عبدان، وابنه أبو بكر بن أبي داود، وأبو بكر بن أبي الدنيا، وعبد الله ابن أخي أبي زرعة، وعبد الله بن محمد بن يعقوب، وعبد الرحمن بن خلاد الرامهرمزي، وعلي بن عبد الصمد ماغمه ، وعيسى بن سليمان البكري.والفضل بن العباس بن أبي الشوارب، وأبو بشر الدولابي الحافظ. - ومحمد بن أحمد بن يعقوب المتوثي البصري - راوي كتاب (القدر) له - ومحمد بن جعفر بن الفريابي، ومحمد بن خلف بن المرزبان، ومحمد بن رجاء البصري، وأبو سالم محمد بن سعيد الأدمي، وأبو بكر محمد بن عبد العزيز الهاشمي المكي ، وأبو عبيد محمد بن علي بن عثمان الآجري الحافظ، ومحمد بن مخلد العطار الخضيب ، ومحمد بن المنذر شكر، ومحمد بن يحيى بن مرداس السلمي، وأبو بكر محمد بن يحيى الصولي، وأبو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفراييني. سنن کے رواۃ مندرجہ ذیل ہیں: أبو الطيب أحمد بن إبراهيم بن الأشناني البغدادي ، أبو عمرو أحمد بن علي بن حسن البصري ،أبو سعيد بن الأعرابي ، علي بن الحسن بن العبد الأنصاري ، أبو علي محمد بن أحمد اللؤلؤي، محمد بن بكر بن داسة التمار، أبو أسامة محمد بن عبد الملك الرواس حفظ و ضبط امام صاحب کو حفاظ حدیث میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ ابو حاتم: حفظ کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے۔ (تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵) محمد بن مخلد: ابوداؤد ایک لاکھ حدیث کا پورا مذاکرہ کیا کرتے تھے، اور جب آپ نے سنن مرتب کی تو تمام اہل زمانہ نے آپ کے حفظ اور سبقتِ علمی کا اعتراف کیا۔ (تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵) امام نووی: جمہور علمائے اسلام کو ان کے کمال حفظ کا اعتراف ہے۔ جرح و تعدیل علل حدیث میں آپ کو ملکہ راسخہ عطا ہوا تھا، جیسا کہ ممتاز علماء نے اس فن میں آپ کی مہارت کا اعتراف کیا ہے۔ آپ کی قوت تمییز، اور نقد و نظر پر اساطین فن کا اتفاق ہے۔ احمد بن محمد بن یسین الہروی فرماتے ہیں: ابوداؤد حدیث نبوی، اور علم و علل اسانید کے حفاظ میں سے ہیں، عبادت پاکدامنی، صلاح اور ورع وتقوی میں اعلی مرتبہ پر فائز ہیں۔ (السیر ۱۳؍ ۲۱۱،تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵) ابوحاتم بن حبان کا ارشاد ہے: ابوداؤد فقہ، علم، حفظ، عبادت، ورع و تقوی، اور پختگی و مہارت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک امام تھے، آپ نے احادیث کی جمع و ترتیب اور تصنیف و تالیف کا کام کیا، اور سنن کا دفاع کیا۔ (السیر ۱۳؍ ۲۱۲، تہذیب التہذیب ۴؍ ۱۷۲) حافظ ابن مندہ: حافظ ابن مندہ کا بیان ہے: احادیث کی تخریج، معلول و ثابت، اور غلط و صحیح میں تمییز کرنے والے چار آدمی ہیں: بخاری، مسلم، ان کے بعد ابوداؤد اور نسائی۔ (شروط ابن مندہ، السیر ۱۳؍ ۲۱۲، تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵) ورع و تقویٰ مسلم بن قاسم فرماتے ہیں: مسلم بن قاسم مسلم آپ کے ورع و تقوی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ ثقہ اور زاہد تھے، حدیث کے ماہر تھے، اپنے وقت کے اس فن کے امام تھے۔ حافظ ابوبکر الخلال: حافظ ابوبکر الخلال فرماتے ہیں:امام ابوداؤد اپنے عہد کے متفوق امام ہیں، آپ کے زمانہ میں آپ سے بڑھ کر کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جو علوم کی تخریج کی معرفت، اور مواضع حدیث کی بصیرت میں آپ سے بڑا ہو، آپ ورع و تقوی میں فائق و برتر تھے۔ (تہذیب الکمال ۱۱؍ ۳۶۴) ابوحاتم بن حبان اور احمد بن محمد بن یسین الہروی: اسی طرح ابوحاتم بن حبان اور احمد بن محمد بن یسین الہروی وغیرہ نے بھی آپ کے ورع وتقوی کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا ہے۔ امام کے ورع وتقویٰ کے لئے یہ مثال ہی کافی ہے کہ آپ اپنی ایک آستین کشادہ اور دوسری تنگ رکھا کرتے تھے، جب آپ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا: ایک آستین تو اس لئے کشادہ رکھتا ہوں کہ اس میں اپنی کتاب کے کچھ اجزاء رکھ لوں، اور دوسری کا کشادہ رکھنا غیر ضروری ہے۔ (السیر ۱۳؍ ۲۱۷) آپ کا یہ فعل ورع و تقوی کے ساتھ احتیاط فی الحدیث یا احتیاط فی الروایت کی بھی غمازی کرتا ہے۔ فن حدیث میں تبحر و کمال حدیث میں جلالت علم کا اعتراف کرتے ہوئے: امام حاکم فرماتے ہیں: ابوداؤد اپنے وقت کے اہل حدیث کے بلا مقابلہ امام تھے۔ (السیر ۱۳؍ ۲۱۲) علّان بن عبدالصمد نے یہ رائے قائم کی ہے کہ آپ میدان حدیث کے شہسوار تھے۔ (السیر ۱۳؍۲۱۲) حافظ محمد بن اسحاق الصاغانی، اور ابراہیم الحربی: حافظ محمد بن اسحاق الصاغانی، اور ابراہیم الحربی حدیث میں آپ کی مہارت تامہ کو یوں بیان کرتے ہیں: «اُلِين لأبي داود الحديث كما اُلِين لداود الحديد» یعنی ابوداؤد کے لئے حدیث ویسے ہی نرم اور آسان بنادی گئی جیسے داود علیہ السلام کے لئے لوہا نرم کر دیا گیا۔ (السیر۱۳؍۲۱۲ و۲۱۳،تہذیب التہذیب ۴؍ ۱۷۲) موسی بن ہارون فرماتے ہیں کہ ابوداؤد دنیا میں حدیث کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے اور آخرت میں جنت میں رہنے کے لئے۔ (السیر ۱۳؍۲۱۲) نیز فرمایا کہ میں نے ابوداؤد سے افضل آدمی نہیں دیکھا۔ (السیر ۱۳؍ ۲۱۳) فقہی ذوق و بصیرت امام ابوداؤد کو جس طرح حدیث میں امامت کا درجہ ملا ہے اسی طرح آپ کو فقہ و اجتہاد میں بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی، فقہی بصیرت اور عمیق نظر رکھنے کے سبب بعض علماء نے تو آپ کو فقہ و اجتہاد میں امام بخاری کے بعد دوسرا درجہ دیا ہے، اور لکھا ہے کہ امام بخاری کے بعد امام ابواؤد کا مرتبہ سب سے بلند ہے، اور پھر جملہ اصحاب تراجم و طبقات نے آپ کے اس وصف کا تذکرہ کیا ہے۔ آپ کے اس ذوق اور بصیرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگ سکتا ہے کہ آپ نے اپنی کتاب کتاب السنن کو صرف احکام ومسائل کی جمع وترتیب تک ہی محدود رکھا۔ امام ابوحاتم آپ کو امام فقہ قرار دیتے ہیں۔ امام ابواسحاق شیرازی نے اصحاب صحاح ستہ میں سے صرف امام ابوداؤد ہی کو طبقات فقہاء میں شمار کیا ہے، اور یہ امتیاز آپ کو اسی فقہی بصیرت اور فقہی ذوق کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ فقہی مذہب ابواسحاق شیرازی نے امام صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی نسبت حنابلہ کی طرف کر دی ہے، نیز طبقات حنابلہ میں آپ کا ذکر ہے، اور بعض نے آپ کو شافعی المذہب لکھ دیا، لیکن یہ محض درسی نسبت ہے، اور یہ غلط فہمی غالبا امام احمد بن حنبل اور امام شافعی کے اکثر و بیشتر مسائل میں موافقت کے سبب ہوئی ہے، نواب صدیق حسن حافظ ابن حزم کا قول نقل فرماتے ہیں کہ ان اہل علم کے بعد بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی آئے، ان میں سے کسی نے اپنے سے پہلے کے امام کے قول کی تقلید نہیں کی، بلکہ ہر ایک نے تقلید سے منع کیا اور اس پر نکیر کی۔ حافظ ذہبی آپ کے تبحرعلمی اور فقہ وحدیث میں امامت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ابوداؤد حدیث اور فنون حدیث میں امامت کے ساتھ کبار فقہاء میں سے ہیں، آپ کی کتاب السنن اس پر دلالت کرتی ہے، آپ اصحاب امام احمد کے منتخب لوگوں میں سے ہیں، امام احمد کے مجلس کی ایک مدت تک پابندی کی، اور اصول و فروع کے دقیق مسائل پر آپ سے سوالات کئے، آپ اتباع سنت اور سنت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے باب میں، اور دشوار گزار کلام ومسائل میں غور و خوض نہ کرنے میں سلف کے مذہب پر تھے۔ (السیر ۱۳؍۲۱۵) علامہ طاہر الجزائری کے بیان سے بھی امام ابوداؤد کے کسی دوسرے امام کے مقلد ہو نے کی نفی اور تردید ہوتی ہے، فرماتے ہیں: «أما البخاري وأبو داؤد فإمامان في الفقه وكانا من أهل الاجتهاد» تو یہ دونوں امام بخاری اورامام ابوداؤد فقہ کے امام ہیں، اور دونوں اہل اجتہاد میں سے ہیں۔ اولاد اولاد میں صرف ایک صاحبزادے محدث ابوبکر عبداللہ کا ذکر ملتا ہے۔ وفات امام صاحب کی وفات ( ۱۶ ) شوال بروز جمعہ ۲۷۵ ھ ( ۷۳ ) برس کی عمر میں ہوئی۔ «رحمة اللہ علیہ رحمة واسعة»
Flag Counter