Maktaba Wahhabi

4 - 79
فکرو نظر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 'غيرت کے نام پر قتل'اور شریعتِ اسلامیہ کیا غیرت کے نام پر ہونے والے ہر قتل کی سزا قصاص ہے؟ اسلام اور اس کی جدید تجربہ گاہ کے نام پر سینۂ ارضی پر وجود میں آنے والی ریاست پاکستان اپنے قیام کے ۶۵ برس بھی تشخص اورشناخت کے بحران میں مبتلا ہے۔ عظیم اکثریت کا نمائندہ طبقۂ اہل علم اس ملک کو اس کی اصل بنیاد اور اسلامی تقاضوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے، ان کے لیے شریعتِ اسلامیہ کا ہر فرمان قابل اتباع ہے اور وہ اس کو بہر طور مفکر وبانیانِ پاکستان کی خوابوں کے مطابق ایک کامیاب اسلامی معاشرہ بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار احکامات کی طرح یہ فرمان بھی واجبُ الاتباع ہے : ﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴾[1] ''اور تیرے ربّ کی قسم! یہ مؤمن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو فیصلہ کن حیثیت نہ دے لیں۔ پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں۔ اور دل وجان کے ساتھ انہیں قبول وتسلیم کر لیں۔'' اس جیسی بہت سی آیاتِ کریمہ میں ایسے معاملات میں، جن میں شریعت کا صریح حکم موجود ہے، اپنی طرف سے نت نئی قانون سازی کرنا ناجائز اور اتباعِ نبوت سے انحراف قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ وطن عزیز کا دوسرا طبقہ وہ ہے، جو مغربی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ، مغربی تہذیب وتمدن کو اپنے لیے 'رول ماڈل'سمجھتا ہے۔ سول سوسائٹی اور حقوقِ نسواں کے نعرے لگانے والا یہ طبقہ، ایک طرف خواتین کے لیے ہدایاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ کو نہ تو درخورِ اعتنا سمجھتا ہے، اور نہ ہی معاشرہ وریاست کی صورت گری میں مذہب کو بنیادی کردار دینے پرآمادہ ہے۔ اس طبقہ کی بھرپور تائید عالمی ادارے،
Flag Counter