الْعَمَلُ بِهَا، وَهِیَ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ عَلَیْهِ النَّاسُ عِنْدَنَا"[1] ”عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب عمل ہے اور ہمارے ہاں ہمیشہ سے لوگ اس پر عمل پیرا رہے ہیں ۔“ مذہب ثالث : ابو حنیفہ اور احناف کا مذہب ہے کہ عقیقہ نہ واجب ہے، نہ سنت بلکہ جاہلیت کی ایک رسم ہے۔[2] علماے احناف کی دلیل گزشتہ روایت کے یہ الفاظ ہیں : (( لاَ یُحِبُّ اللّٰهُ الْعُقُوْقَ)) (اللہ تعالیٰ عقوق کو ناپسند کرتے ہیں ) راجح موقف عقیقہ واجب ہے، یہی موقف راجح اور اقرب الیٰ الصواب ہے، کیونکہ جس حدیث سے جمہور علما نے عقیقہ کے استحباب کی دلیل لی ہے، اس روایت سے عقیقہ کے استحباب کی دلیل لینا درست نہیں ، نیز اس روایت سے استدلال کرنے میں جمہور علما اور احناف افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں ، کیونکہ سیاقِ حدیث نہ تو عقیقہ کے مکروہ ہونے پر دال ہے اور نہ اس سے عقیقہ کا وجوب ساقط ہوتا ہے، بلکہ اس حدیث میں لفظِ عقیقہ کے استعمال کو مکروہ قرار دیا گیا اور اس لفظ کے نام کی تبدیلی پر زور دیا گیا ہے کہ اس کو نسیکہ یا ذبیحہ کہا جائے، کیونکہ لفظ عقوق اور عقیقہ کا مادہ ایک ہے، لہٰذا اس اشتباہ و مماثلت کا ازالہ مقصود ہے۔ عقیقہ کی کراہت و استحباب مقصود نہیں ، چنانچہ علامہ سندھی مذکورہ حدیث کی توضیح یوں بیان کرتے ہیں : ’’ اس حدیث میں عقیقہ کی توہین اور اس کے وجوب کو ساقط کرنا مقصود نہیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس (عقیقہ) نام کو نا پسند کیا ہے اوریہ پسند فرمایا کہ اس کا اس سے بہتر نام یعنی ’نسیکہ یا ذبیحہ‘ وغیرہ ہو۔‘‘[3] اس مسئلہ کی مزید توضیح و بیان کے لیے محدثِ شہیر حضرۃ العلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے جسے من و عن پیش کیا جاتا ہے: |