قَالُوا: أَنَّهُ رِدَّةٌ [1] ’’ان کے قول: وَبِمِثْلِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اسے قتل توکیا جائے گا لیکن وہ ارتداد کی بنا قتل ہوگا۔‘‘ 10. شتم رسول کے حد ارتداد کو مستلزم قرار دینے والے حنفی فقہا یہ بھی ہیں: وَقَدْ نَقَلَ ابْنُ أَفْلَاطُونَ زَادَه فِي كِتَابِهِ الْمُسَمَّى بِمُعِينِ الْحُكَّامِ أَنَّهَا رِدَّةٌ حَيْثُ قَالَ مَعْزِيًّا إلَى شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ مَا صُورَتُهُ مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَوْ بَغَضَهُ كَانَ ذَلِكَ مِنْهُ رِدَّةً وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّينَ. وَفِي النَّتْفِ مَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِنَّهُ مُرْتَدٌّ وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّ وَيُفْعَلُ بِهِ مَا يُفْعَلُ بِالْمُرْتَدِّ [2] اوپر کے اقتباسات میں پہلے آٹھ حنفی فقہاکے موقف شاتم رسول کی سزا ے قتل ہونے پر گزرے ہیں جبکہ سزاے قتل کی کوئی توجیہ اُنہوں نے نہیں کی، جبکہ پانچ مزید حنفی علما (ابن ہمام،قاضی ابن عابدین، ابن بزاز، رملی اور مولیٰ خسرو)نے اس جرم کی سزا بطور مستقل حد ، سزاے موت ذکر کی ہے اور آخری تین اقتباسات میں امام ابو حنیفہ کے بارے قاضی عیاض نے او ر امام طحاوی حنفی کے بارے ابن افلاطون زادہ نے اور النتف میں کسی نسبت کے بغیر، شاتم رسول کی سزا کو بطورِ ارتداد قتل قراردیا گیا ہے۔اس طرح 16حنفی فقہا کے موقف،مسلمان شاتم رسول کی سزاے موت پر یہاں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ مذکورہ بالا فقہاے احناف میں، حالیہ دور کے نامور حنفی علما کے اقوال کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا ہے کہ فقہ حنفی کے دور ِاوّل کے امام ابوحنیفہ اورقاضی ابو یوسف سے لے کر، اس زمانہ کے نامور حنفی فقہا تک، سب کواحناف کے اس موقف میں کوئی تردّد یا اضطراب نظر نہیں آیا اور ان کا موقف بالکل واضح ہے کہ مسلمان شاتم کی سزا قتل ہی ہے ، چاہے مستقل بالذات جرم گستاخی کی بنا پر ہو یا حد ارتداد کے لزوم کی بنا پر۔ تو اب اس میں تحقیق کے نام پر یہ نیا موقف کیوں کر پیش کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے کہ ’’علماے احناف کے ہاں اس جرم کی سزا یا حد مقرر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ محض ایک تعزیری جرم ہے۔‘‘ یا |