Maktaba Wahhabi

36 - 138
معافی کی گنجائش نہیں ۔ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں چند گستاخانِ رسول کو معاف کردینے کا تعلق ہے تو اس سےمتعلق یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تھا اور آپ جسے چاہتے معاف کرسکتے تھے ہم اس کا اختیار نہیں رکھتے ۔ جیسا کہ میری بہن اور بھائی میرے والد کی وراثت میں میری طرح برابرکے حقدار ہیں ، اب اگر وہ اپنی زندگی میں اس حق کو معاف کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں یہ ان کا حق ہے ۔ مگر جب وہ دنیا سے رخصت ہوجائیں تو پھر میں دنیا میں ان کے حصے پر قبضہ جمانے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اس حق کو اب کوئی معاف نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جس کا حق ہوتاہے، وہ اسے معاف کردے یا حاصل کرلے یہ اس کے لئے جائز اور روا ہے لیکن کوئی دوسرا اس کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا ۔ اس لئے شانِ رسالت کی توہین کرنے والے کی سزا ہر حال میں قتل ہوگی ۔ چھٹا اعتراض :سزا میں نرمی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سزا بہت سخت ہے، اس میں کچھ نرمی ہونی چاہئے ۔ جواب : یہ سزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہے اور وہ ربّ اپنے بندوں پر سب سے زیادہ رحیم ہے ۔ یہاں تو عدالت کی معمولی توہین اور مخالفت کی وجہ سے سالہا سال کال کوٹھڑی میں گذارنے پڑتے ہیں ۔ جاوید ہاشمی کوپرویز مشرف کی مخالفت کی وجہ سے ۶ سال جیل کاٹنا پڑی ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو محض حملے کی تیاری کا ارادہ کرنے کی پاداش میں ۸۶ سال کی سزا ہوسکتی ہے تو توہین رسالت کی سزا موت کیوں نہیں ہوسکتی ۔ دنیا کی ساری عدالتیں اور شخصیات مل کر بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ اورجاوید احمد غامدی کی جانب سے عموماً یہ دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ذمی شاتم رسول کی قتل کی سزا مقرر نہیں کی گئی ۔ تو اس بارے میں وضاحت یہ ہے احناف کے تمام علما اس مسئلے پر متفق ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ذمی کے وجوبِ قتل کا جو فتویٰ جاری کیا ہے ۔ وہ بالکل صحیح فتویٰ ہے اور تمام احناف کے نزدیک شاتم رسول چاہےذمی ہو یا معاہد واجب القتل ہے ۔
Flag Counter