بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر قانونِ توہین رسالت: منظوری اورخاتمے کے مابین پاکستان میں امتناعِ توہینِ رسالت کا قانون ایک بار پھر لادین طبقہ کے پیدا کردہ شبہات اور اعتراضات کی زدمیں ہے۔سیکولر لابی کے لگاتار دباؤاور عالمی قوتوں کے پرزور اِصرارکا مقصدیہ ہے کہ پاکستان میں اسکو کتابِ قانون سے حذف یاکم ازکم غیرمؤثر کردیا جائے۔جبکہ ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے حکومت کا یہ بنیادی فرض بنتاہے کہ یہاں براہِ راست کتاب وسنت کو نافذ کرکے پاکستان کے مقصد ِوجود کے مطابق ضروری اقدامات کئے جائیں ۔ پاکستان کے سیکولر عناصر کو پہلے روز سے پاکستان کا اسلامی تشخص قبول نہیں اور وہ آئے دن اس کو ختم کرنے کی تمام تر کوششیں بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔ اس لابی کو پہلے حدود قوانین پر شدید اعتراضات تھےجنہیں پرویز مشرف کے دور میں آخرکار ’ویمن پروٹیکشن بل‘ کے نام سے غیرمؤثر کرنے میں شرمناک کامیابی حاصل کی گئی، ان لوگوں کا اگلا مرحلہ پاکستان کے ’قصاص ودیت کے قوانین‘ ہوں گےجنہیں عالمی سطح پر موت کی سزا کے خاتمے کی تحریک سے ہم آہنگ کرکے پاکستان میں ان اسلامی قوانین کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں پاکستان کے نام میں ’اسلامی‘ کا لفظ بھی کھٹکتا ہے اور اگلے دنوں میں پاکستانی دار الحکومت کا نام ’اسلام آباد‘ اور پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ بھی کھٹکنا شروع ہوجائے گا۔ ان لوگوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حکومتی فیصلہ کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہی وہ طبقہ ہے جو نصاب سے قرآنِ مجید اور اسلامی تاریخ کے نامور کردار حذف کرانے کے لئے کوشاں ہے اور پاکستان کی تاریخ اور کلچر کا ناطہ ہندو مت، راجہ داہر اور موہن جوداڑو کی تہذیب سے جوڑنا چاہتا ہے۔ کلچر اور ہندوستانی تہذیب سے والہانہ شغف کی بنا پر اس طبقہ کو برصغیر کی تقسیم بھی بہت کھٹکتی ہے، اور یہ بھارت سے فلمی کلچر کی |