بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم مغرب نے تین صدیاں قبل، اپنی نشاۃِ ثانیہ کے مرحلہ پردین ومذہب کو دیس نکالا دے کر ’قومی ریاستوں ‘ کا نظریہ پیش کیا، اور اس موقع پر دین وریاست کے مابین حد بندی کے سیکولر نظریے کو متعارف کرایاگیا۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ یہ نظریہ الحاد ودہریت کے لئے ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوگا اور اس طرح مذہب کو ایک تنگ دائرے میں بند کرکے جدید دنیا کا انسان اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہوگا۔ یہ امر حقیقت ہے کہ دین وریاست کے مابین حد بندی اور جدائی کا یہ نظریہ، مغربی نظریات میں سے انتہائی خطرناک ثابت ہوا، اور اس نے مذاہب کے دائرہ عمل کو محدود کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس بنا پر آج کی مغربی ریاستوں کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ عیسائی ریاستیں ہیں ، ایک غلط فہمی ہے۔ اہل مغرب نے پہلے پہل اپنے عیسائی مذہب سے ہی آزادی حاصل کی تھی اور کلیسا سے آزادی کی جنگ لڑی تھی، اس کے بعد آج وہاں اِلحاد ودہریت اور انسانی خواہشات کی حاکمیت، جمہوریت کی صورت میں قائم ہے۔ جبکہ مغربی معاشرے کا مذہبی حوالہ اسی حد تک ہے کہ اپنے تاریخی پس منظر کی بنا پر وہ دیگر مذاہب کے بالمقابل عیسائیت سے زیادہ قربت اور مانوسیت رکھتا ہے۔ عیسائیت ویہودیت ہو یا ہندو مت اور بدھ و جین مت وغیرہ، ان کی حد تک مغرب کا یہ نظریہ کارگر ثابت ہوا، لیکن اسلام جو اللہ جل جلالہ کا نازل کردہ کامل اور آخری دین ہے، اس کے مقابلے میں مغرب کو یہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ مذاہب وادیان کی تاریخ پر معمولی نظر رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ قرآنِ کریم کی حفاظت اور اس کے شانہ بشانہ علومِ اسلامیہ کی غیرمعمولی ترقی ایسی ناقابل شکست برتری رکھتی ہے کہ اس کے مقابل آنے والا ہر نظریہ آخرکار شکست خوردہ ہوجاتا ہے۔ کسی بھی جاذبِ نظر اور بظاہر بڑے مفید نظریہ کو جب اسلام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو قرآن وسنت کے محکم دلائل کے سامنے اس کی حقیقت لمحوں میں کھل |