معاوضہ ادا کرنے اور فوجی چوکیاں وغیرہ ہٹانے کی حکومتی خلاف ورزیوں کی بنا پر معاہدہ کو منسوخ قرار دے دیا۔ ‘‘ (روزنامہ ایکسپریس، ۱۶ جولائی ۲۰۰۷ء، صفحہ اوّل) یوں تو اس معاہدے کے خاتمے میں شرائط کو نظرانداز کرنے کا تذکرہ کیاگیا ہے لیکن درحقیقت اس معاہدہ کے خاتمہ میں لال مسجد پر ہونے والی جارحیت کا ایک اہم کردار ہے۔ کیونکہ ۲۰۰۴ء میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے قبائلی علاقوں پر حکومتی کاروائیوں کی مذمت کی اور اس کے لئے لال مسجد کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا تھا، اس وقت پہلی بار لال مسجد اور حکومتی حلقوں میں باہمی تناؤ اورناراضگی کی لہر پیدا ہوئی۔ اس بات پر معاہدہ وزیرستان کی منسوخی کی تواریخ بھی گواہ ہیں ۔ لال مسجد کا سانحہ جہاں مسلمانوں کے خلاف جاری جارحیت اور افغانستان میں امریکہ کی تائید پر ردّ عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا، وہاں قبائلی علاقوں کے موجودہ حالات اور ان میں جاری جنگ اسی رنج وغم کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمند ایجنسی میں عظیم مجاہد ِآزادی حاجی ترنگزئی کی قبر کے قریب واقع مسجد کو انہی دنوں لال مسجد کا نام دے کر وہاں برسرپیکار مسلمانوں نے جامعہ حفصہ اُمّ حسان کے نام سے عظیم مدرسہ قائم کرنے کے عزم کا بھی اظہار کردیا ہے۔ (اداریہ نوائے وقت : ۳۱/ جولائی ) ماضی میں تسلسل سے رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کو ذہن میں رکھیں اور دوسری طرف صرف جولائی کے مہینے میں ہونے والے اقدامات کو بھی تازہ رکھتے ہوئے پاکستان کو اس ماہ کے اَواخر میں جس نئے مسئلہ کا سامنا کرناپڑاہے، اس نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کے قضیے کو سلگا دیا ہے۔اس مسئلہ کی جڑیں اس داستانِ وفاسے ملتی ہیں جس کا آغاز امریکی صدر بش نے نائن الیون کے بعد صدر پرویز مشرف کے بھرپور تعاون سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی شکل میں کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے امریکی مفادات کے لئے پاکستانی حکومت کے والہانہ اقدامات کا صلہ ایسی صورت میں پیش کردیا ہے جس کے بعد جہاں پاک امریکہ دوستی کی حقیقت کھل کرسامنے آگئی ہے، وہاں امریکہ کے عزائم اور رجحانات بھی طشت ازبام ہو گئے ہیں ۔ چنانچہ گزشتہ دنوں صدر بش نے اپنے خطاب میں پاکستان پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اُسامہ بن لادن زندہ موجود ہیں ، یہ قرار دیا ہے کہ اگر امریکہ میں کسی بھی مقام پر دہشت گردی کی کوئی کاروائی ہوتی ہے توامریکہ پاکستان کے ان |