جواب: اس طرح کے اُمور کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کے صحابہ سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی ائمہ المسلمین ،ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ اورمعتمد اصحابِ کتب نے اپنی صحاح، سنن ا ور مسانید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم سے کوئی صحیح یا ضعیف حدیث روایت کی ہے،لیکن بعض متاخرین نے ان اُمور کے متعلق چند روایات بیان کی ہیں ، لیکن اس طرح کی تمام روایات موضوع اور من گھڑت ہیں – (الفتاویٰ الکبریٰ از ابن تیمیہ: 2/295 )٭ سوال :عاشورا کا روزہ افضل ہے یا عرفہ کا روزہ؟ جواب :حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری (4/315) میں فرماتے ہیں کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے یہ مرفوع حدیث بیان کی ہے کہ ”عاشورا کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔“ تو اس حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یومِ عرفہ کا روزہ یومِ عاشوراکے روزہ سے افضل ہے۔اور اس افضلیت کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے عاشورا کا روزہ موسیٰ کی طرف منسوب ہے اور عرفہ کاروزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ۔ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ بدائع الفوائد (2/293)میں فرماتے ہیں کہ اس افضلیت کی وجہ اگر پوچھی جائے تو دوہیں : [1]عرفہ کا روزہ عاشورا کے روزہ کے برعکس حرمت والے مہینہ میں ہونے کے ساتھ ساتھ دو حرمت والے مہینوں کے درمیان بھی ہے۔[2]عرفہ کا روزہ عاشورا کے برعکس ہماری شریعت کے خصائص میں سے ہے ۔ (فتاویٰ :شیخ محمد صالح المنجد) |