ہیں۔ پیپلز پارٹی،انسانی حقوق کمیشن،جاوید احمد غامدی اور ان سے متعلقہ لوگ اس کی کلی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں زنا پر عائد قانونی قدغن کو ختم کرکے معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانا اور ملک میں اسلامی قانون کی آخری علامت ختم کرکے اس کا اسلامی تشخص مٹانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو ان میں معمولی سی ترمیم کے بھی حامی نہیں ، کیونکہ موجودہ حکومت سے انہیں کسی اصلاح کی اُمید نہیں ہے اور وہ بہتری کے نام پر قانونِ توہین رسالت کی طرح عملاًان کو معطل نہیں کرواناچاہتے۔ یاد رہے کہ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں پاس ہونے والے ترمیمی ایکٹ میں ’۱۵۶ بی‘ کے تحت اس حد تک زنا کی سزا میں ترمیم بھی کی جاچکی ہے کہ ’’زنا کا جرم عدالت کے بغیر عائد نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ ایسی ترامیم سے اس حلقے کے شکوک وشبہات کی مزیدتائید ہوتی ہے۔یہی موقف متحدہ مجلس عمل نے ۱۲/جون کے اجلاس میں اپنایا ہے۔ البتہ بعض مثالیت پسند لوگ بہتری کی گنجائش اور غلطی کے امکان کی بنا پر ان میں ترمیم وتغیر کا راستہ کھولتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اوّل تو وہ ترمیم بھی خدائی نہیں بلکہ انسانی ہوگی جس سے بعض لوگوں کو اختلاف اورمزید بہتری کی گنجائش باقی رہے گی۔ حدود قوانین کو موجودہ شکل میں ہی باقی رکھا جائے، البتہ محض اس میں کتاب وسنت کی بالادستی او رنگرانی کی ایک شق کا اضافہ کردیا جائے اور باقی تفصیلات شرعی قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دی جائیں۔ تینوں رجحانات اور ان کے مضمرات واضح ہیں ، دین سے ہماری وابستگی اور اسلام سے ہمارا تعلق معرضِ خطر میں |