Maktaba Wahhabi

26 - 143
فقہ واجتہاد حافظ حسن مدنی ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی سزا شرعی اور قانونی نقطہ نظر پاکستان میں غیرت کے جرائم کا مسئلہ پانچ برس قبل اپریل 1999ء میں ، قومی پریس میں اُس وقت نمایاں ہوا تھا جب سمیعہ عمران نامی پشاور کی ایک عورت نے اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں گھر سے فرار ہوکر عاصمہ جہانگیر کے ادارہ دستک میں پناہ لی تھی جس کے نتیجے میں اس عورت کو ماں باپ کے ہمراہ موجود باڈی گارڈ نے گولیوں سے دستک کے د فتر میں قتل کردیا تھا۔اس کے بعد سے یہ مسئلہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اہم جگہ حاصل کرتا رہا ہے۔ ان سالوں کے دوران تواتر سے اس مسئلہ کے بارے میں این جی اوز نے ہر پلیٹ فارم پر پاکستانی قوانین کو تبدیل کرنے اور ایسے مجرم کو سنگین سزا دینے کے مطالبے دہرائے ہیں ، مختلف سیمینار اور مظاہرے بھی کئے جاچکے ہیں اور اخبارات اس پر عوامی سروے بھی کروا چکے ہیں ۔ بالخصوص ان دنوں حکومتی حلقوں میں بھی ان کے مطالبوں کو وزن حاصل ہوگیا ہے اور یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں زیر بحث بھی آچکا ہے کیونکہ دو بل اس کی حمایت میں پیش کئے گئے تھے۔ 8/اکتوبر کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے قتل غیرت کے متعلق قانون سازی کی حمایت کرتے ہوئے ترمیمی تجاویز پاس کر کے قومی اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کر دی ہیں ۔27/اکتوبر کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ حکومت نے معمول کی کاروائی سے ہٹ کر اس بل پر بحث شروع کرائی اور چند گھنٹوں میں اسے منظور کرا لیا۔اب یہ بل سینٹ میں پیش ہونے والا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ قانونی وشرعی نکتہ نظر سے اس کا تفصیلاً جائزہ لیا جائے۔ اس بارے میں ہمارے ہاں مختلف قسم کی آرا پائی جاتی ہیں : این جی اوز کاموقف غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بارے میں مغرب زدہ این جی اوز کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کو سنگین ترین جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزا میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں قائم کردہ ’خواتین حقوق کمیشن‘ نے اگست 1997ء
Flag Counter