Maktaba Wahhabi

41 - 64
1. اللہ کے نبیوں کے تعمیر کردہ خانہ خدا کی تولیت کے معاملے میں بھی مشرکین اور اہل کتاب کے مابین فرق کو لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ 2. مشرکین مکہ کے برخلاف اہل کتاب کو محض سیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک حکم کو محدود رکھا گیا ہے اور مذہبی مراکز پران کے حق تولیت کو اشارۃً بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ 3. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں کہیں بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی قانونی و شرعی حیثیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا اورنہ اس حوالہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کوئی ہدایت دی۔ 4. صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذہن میں مسجد ِاقصیٰ کے حق تولیت کا کوئی تصور نہ تھا۔ 5. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد ِخلافت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو امیر المؤمنین نے یہاں کے باشندوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا لیکن مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ اس میں بھی زیربحث نہ آیا۔ 6. حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں غیرمسلموں کو ضرورت کے تحت تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن بیت المقدس کے حوالے سے اس قسم کی کوئی ہدایت اسلامی قوانین میں نہیں دی گئی۔ حرمین شریفین اور بیت المقدس کے احکام میں اس فرق کی آخر کیا توجیہ کی جائے؟ 7. فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرے میں اس بات کی تصریح نہیں تھی کہ مسجد ِاقصیٰ کو اہل کتاب کے تصرف سے نکال کر اہل اسلام کی تولیت میں دے دیا گیا ہے۔ مصنف کے ان دلائل کے ردّ میں ہماری معروضات درج ذیل ہیں : 1. تمام معاملات میں مشرکین اوراہل کتاب کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ بعض، بالخصوص سیاسی نوعیت کے، معاملات میں یہود سے مشرکین کی نسبت زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔ مدینہ اور خیبر سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا مگر فتح مکہ کے وقت مشرکین کے ساتھ رحم دلی کا جو سلوک جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس سے ہرشخص واقف ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے اَدوار میں ریاست ِمدینہ کی یہودیوں کے متعلق جوپالیسی رہی، اس کو سامنے رکھا جائے تو یہود مشرکین سے بھی زیادہ سخت پالیسی کے مستحق سمجھے جائیں گے۔ اشراقی مصنف نے قیاس مع الفارق کا شکار ہوکر
Flag Counter