بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر اسلامی تہوار اور دم توڑتی تہذیبی روایات! قومیں اپنے مضبوط تہذیب وتمدن سے پہچانی جاتی ہیں اور تہذیب کے نشو وارتقا میں مذہبی تصورات کے ساتھ ساتھ مذہبی تہواروں کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ زندہ قومیں اپنے تہوار بڑی گرم جوشی اور جوش وخروش سے مناتی ہیں کیونکہ یہ تہوار ان کی ثقافتی وحدت اور قومی تشخص کا شعار سمجھے جاتے ہیں ۔ اسلامی تہواروں میں جہاں عید الفطر کو ایک غیر معمولی تہوار کی حیثیت حاصل ہے، وہاں رمضان المبارک کا پورا مہینہ بھی مسلم معاشروں میں مخصوص روایتی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔اس ماہ کی آمد کے ساتھ ہی ثقافت میں غیرمعمولی تبدیلی پیدا ہوتی اورمسلم معاشرے کی عادات یکسر طور پر تبدیل ہوجاتی ہیں اور ہر شے پر ایک مخصوص نورانی رنگ نظر آنے لگتا ہے۔ مذہبی تہواروں کو روایتی شان وشوکت سے منانا قوم سے وابستہ افراد میں اعتماد پیدا کرتا ہے اور ان میں دوسری قوموں سے برتر ہونے کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ ایک قوم کے افراد کا آپس میں تفاخر اور برتری کا اظہار توکوئی پسندیدہ امر نہیں لیکن قوموں کی برادری میں بہر حال یہ ایک مطلوب امر ہے۔ اپنے تہواروں سے وابستگی اور دیگر قوم کے تہواروں سے لاتعلقی ہمارے جسد ِقومی کی بقا اور تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد وہاں کے علاقائی تہواروں کو منانے کے بجائے مسلمانوں سے فرمایا: قد أبدلکم اللّٰه بہما خیرا منہما: یوم الأضحی ویوم الفطر (سنن ابو داود) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں (جاہلیت کے تہواروں سے کہیں بہتر) عید الفطر اور عید الاضحی کے دو دن عطا فرمائے ہیں ۔‘‘ عید الفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کے نہ صرف دو مرکزی تہوار ہیں بلکہ ان سے روایتی جوش وخروش اور ہمارے بہت سے تہذیبی اطوار بھی وابستہ ہیں لیکن فکر کا مقام یہ ہے کہ مسلم |