Maktaba Wahhabi

2 - 64
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر اصلی آئین سے ریفرنڈم تک !! جب سے نئی اسمبلیاں تشکیل پائی ہیں ، ایل ایف او کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے، متحدہ مجلس عمل اور دیگرسیاسی جماعتوں کے آئے دن حکومت سے مذاکرات کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں لیکن مذاکرات کا یہ اونٹ ابھی تک کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آتا۔ ایل ایف او کیا ہے؟ اور دینی وسیاسی جماعتوں کو اسے تسلیم کرنے میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟ اس کو مان لینے سے ملکی استحکام کو کون سے خطرات لاحق ہوتے ہیں ؟ ذیل کے صفحات میں اسی ایل ایف او کے ارتقا اور اس میں موجود قوانین کو بالاختصار پیش کیا گیا ہے۔ محدث کے حلقہ قارئین میں چونکہ علماء ، قانون دان اور اہل دانش حضرات کی بڑی تعداد شامل ہے، جنہیں ان مسائل پر عوام الناس کی رہنمائی کا فرض انجام دینا ہوتا ہے، اس لحاظ سے زیر نظر مضمون کے مطالعہ سے وہ بخوبی کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین مجریہ ۱۹۷۳ء اور اس سے قبل نافذ ہونے والے تمام دساتیر میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام رائج رہے گا اور عوام کے منتخب کردہ نمائندوں ہی کو حکمرانی کا حق حاصل ہوگا۔اس آئین میں یہ بھی تحریر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پرحاکمیت ِاعلیٰ اللہ بزرگ و برتر کی ہوگی۔ قرآن اور حدیث سے متصادم کوئی قانون یا ضابطہ نافذ نہیں کیا جاسکے گا اور فوج سمیت تمام سرکاری اور نیم سرکاری ادارے منتخب سیاسی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔ کوئی شخص جو سرکاری نوکری میں منفعت بخش عہدے پر فائز ہے، کوئی سیاسی اعلیٰ عہدہ حاصل نہیں کرسکے گا اور ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد تک کسی الیکشن میں حصہ لے کر اقتدار پرقبضہ نہیں کرسکے گا۔ اتنی واضح آئینی پابندیوں کے باوجود وطن عزیز بار بار آئینی بحران کا شکار ہوتا رہا ہے اور وہ بھی فوجی طاقتوں کی طرف سے۔ سب سے پہلے میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے سیاسی بحران پیدا کیا۔ جس کے نتیجے میں
Flag Counter