2. اہلحدیث صحافیوں کی کمیٹی قائم کی جائے جن کا تعلق الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے ہو۔ جو اہلحدیث کے موقف کو ذرائع ابلاغ پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ باطل افکار کی تردید میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کیا گیا کہ میڈیا میں اہلحدیث کا اثر و رسوخ انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی وجہ سے غلط افکار واقدار فروغ پا رہے ہیں ۔ جبکہ اہلحدیث کی دعوت جو کہ کتاب وسنت پر مبنی اور ہر ایک کے لئے قابل قبول ہے۔اس کی نشر و اشاعت کے لئے میڈیا کو جس طرح استعمال کرنا چاہیے تھا، استعمال نہیں کیا جا رہا ۔ خصوصاً میڈیا کا وہ حصہ جس کے استعمال میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ مثلاً اخبارات میں آرٹیکل لکھنا، انٹرویوز کا نشر کیا جانا، انٹرنیٹ پر ویب سائٹ قائم کرنا، اخبارات میں ان خبروں کی تردید کرنا جن کے ذریعے اہلحدیث فکر پر رکیک حملے کئے جاتے ہیں ۔ اس کے لئے اَربابِ حل و عقد کو سنجیدگی سے غور و فکر کر کے کوئی عملی صورت پیدا کرنی چاہیے۔ 3. دعوت کے میدان میں تمام اہلحدیثوں کو اپنے اختلافات ختم کر کے مشترکہ پلیٹ فارم پر کام کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ جماعتی اختلافات علما کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں ۔ دھڑے بندیوں کی وجہ سے علما کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقعہ نہیں مل رہا۔ کم از کم دعوت کے میدان میں تمام تراختلافات سے بالاتر ہو کر مشترکہ کوششیں بروئے کار لائی جائیں ۔ 4. اہلحدیث قائدین کو ایک ایسا فورم قائم کرنا چاہیے جہاں سے ہماری آواز ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچ سکے۔ اور جدید مسائل کے متعلق ہمارے علما اس فورم کے ذریعہ اپنا موقف عوام الناس کے سامنے پیش کر سکیں ۔ 5. اہلحدیث علما، وکلا، پروفیسرز اور دیگر اہل فکر کا کمپیوٹر ڈیٹا ہونا چاہیے جس کے ذریعہ سے پتہ چل سکے کہ ہمارے علما اور رجالِ کار کہاں کہاں ہیں اور ان سے رابطہ ممکن ہو سکے۔ |