بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر ’علما کا غیر فرقہ وارانہ قتل‘ اور تازہ پس منظر سیکولرزم کی نئی لہر…ایک لمحہ فکریہ! ۲۰۰۲ء کے ماہ مارچ اور پھر ماہ مئی کے دوران وطن عزیز کی پاک سرزمین اپنے دو ایسے فرزندانِ جلیل کے لہو سے گل رنگ ہوئی جن کی شہادت نے اہل و فکر ونظر کو بے تاب وبے قرار کردیا۔ مملکت خدادادِ پاکستان میں امر ربی کے قیام اور تسلسل کا خواب دیکھنے والی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور اس ملک کے طول و عرض میں قرآن و سنت کی سرفرازی کا ارمان رکھنے والے دل مجروح ہوکر رہ گئے!! پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب شہید رحمۃ اللہ علیہ دینی حلقوں میں ایک غیر متنازع شخصیت کے حامل تھے۔ آپ نے اپنی زندگی عربی زبان کے فروغ بذریعہ تفہیم قرآنِ کریم کے لئے وقف کررکھی تھی۔ اللہ بزرگ و برتر نے انہیں تفہیم قرآن کا ایسا اچھوتا اسلوب عطا کیا تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ آپ وسیع المشربی، فرقہ واریت سے بریت اور مذہبی رواداری کی علامت تھے۔ آپ کے قائم کئے ہوئے درسِ قرآن کا سفر چراغ در چراغ پھیلتا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پچاس سے زائد مقامات پر یہ روشنی مستقل طور پر جگمگانے لگی۔ ۱۹/ مارچ ۲۰۰۲ء کو آپ حسب ِ معمول اپنے سننے والوں کے قلوب کو نورِ قرآن سے روشن کرنے کے لئے صبح سات بج کر بیس منٹ پر اے جی آفس کے اندرونی دروازے پر گاڑی سے اُترے۔ ابھی چند ہی قدم اپنی منزل کی جانب اُٹھا پائے تھے کہ دو اجنبی نوجوانوں نے ان پر گولیوں کی بارش کردی۔ گولیوں نے آپ کے سرکو بھی نشانہ بنایا۔ جس کی وجہ سے آپ کی زندگی کا چراغ موقع پر گل ہوگیا۔ اس کے بعد قاتلوں نے پروفیسر صاحب کے ڈرائیو شیراز پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ اس طرح یہ لمحہ شیراز کی زندگی کا بھی آخری لمحہ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک شہید رحمۃ اللہ علیہ کی دل نواز شخصیت، پاکستان اور پاکستان سے باہر اسلام پسند حلقوں کے لئے ہمیشہ محبوب و مقبول رہی۔ آپ فلسفہ اسلام اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں پیچیدہ دینی سوالات کا جواب آسان الفاظ اور اس دل نشین انداز میں دیا کرتے تھے کہ سننے اور دیکھنے والے ان کے گرویدہ ہوجایا |